نرالی حرکتیں

دنیا بھر میں مارکیٹیں رات گئے کے بجائے شام 6 بجے بند ہو جاتی ہیں اور اس طرح وہاں بسنے والے بجلی کے استعمال کو کافی حد تک کم کر دیتے ہیں وہ اپنے روزانہ کے معمولات زندگی سورج کی روشنی میں ہی نبٹا لیتے ہیں‘ پر اپنے ہاں کا دستور نرالا ہے رات بھر بلکہ صبح صادق تک دکانیں کھلی رہتی ہیں‘اب عندیہ ملا ہے کہ بازاروں کی بجلی 7 بجے بند ہوگی اور کمرشل فیڈرز شام 7 بجے سے رات 11 بجے تک  بند رہیں گے اس طرح 8 ہزار میگا واٹ بجلی بچائی جا سکے گی‘ سوال یہ ہے کہ کیا حکام ان فیصلوں ہر عمل درآمد کرانے میں کامیاب بھی ہو پائیں گے؟یہ خبر تشویش ناک ہے کہ پاکستان خشک سالی کا سامنا کرنے والے23 ممالک میں سر فہرست ہے‘2025 ء تک خشک سالی دنیا کی تین چوتھائی آ بادی کو متاثر کر سکتی ہے یہ امر البتہ خوش آئند ہے کہ پاکستان میں 10 لاکھ ہیکٹر رقبے ہر29 بلین پودے لگائے جا رہے ہیں‘ایک معروف مقولہ ہے کہ یہ نہ دیکھو کہ کون کہہ رہا ہے‘ یہ دیکھو کہ وہ کیا کہہ رہا ہے نہ جانے یار لوگوں نے احسن اقبال صاحب کے اس بیان کو کیوں رائی کا پہاڑ بنا لیا ہے جس میں انہوں نے کہا کہ کوئی مضائقہ نہیں اگر روزانہ جو لوگ چائے پیتے ہیں اس میں  اگر وہ ایک آ دھ کپ کی کمی کر دیں کہ چائے کی درآمد پر بھی ہر سال زر مبادلہ کی ایک اچھی خاصی رقم اڑ جاتی ہے‘ہمیں یاد ہے آ ج سے کئی برس پہلے صدر ایوب خان نے بھی کچھ اسی قسم کی نصیحت کی تھی‘ جس پر اس وقت کے اخبارات میں کافی لے دے ہوئی تھی‘سوال یہ ہے کہ آج وطن عزیز کو فارن ایکسچینج کی جس ہوشربا کمی کا سامنا ہے اس کے پیش نظر ہمیں حتی الوسع اپنی ہر قسم کی درآمدات پر کٹوتی کرنا ہو گی جس میں چائے بھی شامل ہو سکتی ہے اور اشرافیہ کے زیر استعمال سامان تعیش وغیرہ‘ قصہ کوتاہ ہمیں پائی پائی جوڑ کر اپنی برآمدات اور درآمدات میں توازن پیدا کرنا ہوگا قومی اسمبلی کے ایک رکن نے اگلے روز اسمبلی کے فلور پر بجٹ میں کفن دفن کیلئے بھی کچھ رقم مختص کرنے کی جو تجویز دی ہے اسے نظر انداز  نہیں کیا جاسکتا موت ایک اٹل حقیقت ہے اور یہ بھی ایک کڑوا سچ ہے کہ وطن عزیز میں ہر سال لاتعداد لوگ مالی بد حالی کے پیش نظر اپنے پیاروں کی تجہیز و تکفین کا مناسب بندوبست کرنے سے قاصر رہتے ہیں‘ماضی میں بلدیاتی ادارے سالانہ بجٹ میں غرباء  و مساکین گھرانوں میں  مرنے والے کیلئے کفن دفن کے واسطے ایک فکسڈ رقم رکھا کرتے تھے کیا آج بھی ایسا ہو رہا ہے کہ نہیں‘ہمیں اس کا علم نہیں بہر حال یہ وقت کی ضرورت ہے اور کسی نہ کسی انتظامی سطح پر اس کا بندوبست ضروری ہے۔