نئے زمانے کاپہلا جھوٹ تو ہمیں موبائل نے سکھلایا ہے‘یہ نئی ایجادات جہاں آدمی کو سکھ دینے کو ہیں وہاں یہی بندے کو دکھ میں ڈال دیتی ہیں مگر ہمارے ہاں کے بندوں پر ان تمام تر نئی ایجادات کے برے اثرات مرتب ہوتے ہیں جنہوں نے ایجادات کی ہیں ان کے کردار اور اخلاق پر اس کا ذرا بھی برا اثر نہیں پڑتاوہ تو پھل پھول رہے ہیں اور نئے زمانوں میں نئے صبح و شام تلاش کر رہے ہیں مگر ہم ہیں کہ نئی ایجادات کے ہوتے سوتے پرانی روش پر چل رہے ہیں ان سے ہمارے اخلاق میں چاہئے تھا کہ بہتری آ جاتی مگر ہماری عادات مزیدخراب ہوئی جاتی ہیں۔اب ایک آدمی پشاور کے قصہ خوانی میں جا رہا تھا موبائل کان سے لگا ہوا تھااونچی اونچی آواز میں باتیں کر رہاتھا ایک جملہ جو میں نے اس کے لب و دہن سے سنا میں چونک اٹھا خود حیران ہوا کہ میں تونکلا تھا قصہ خوانی سے سودا لے آؤں جانے میں کیسے اسلام آباد پہنچ گیا‘اس نے فون پر کہا ”میں تو اسلام آباد میں ہوں“ میں چکرایا یہاں وہاں دیکھا کہ شاید ہو سکتا ہے خواب کا عالم ہو یا خودمیرا دماغی توازن کام نہیں کر رہا جو مجھے ہر جگہ ہر شہر جہاں جاؤں پشاور میرے ساتھ ہوتا ہے میں خود کو اپنے ہی شہر میں موجود سمجھتا ہوں اپنے آپ کو چٹکی کاٹی میں کھانسا اور ہر طرح سے تسلی حاصل کرنے کی خاطر آگے بڑھ کر یادگارشہیداں کو ہاتھ لگایا مجھے پکا یقین ہوا کہ وہ فون پر بات چیت کرنے والا پکاجھوٹ بول رہاتھادل خفا ہوا مگر کیا کریں ضرورت ایجاد کی ماں ہے‘ ضرورت کے سامنے ایجادات کیا شے ہیں۔جب ضرورت ہی سب ایجادوں کی وجہ ٹھہری ہے اور ایجادیں بعد میں ہیں تو ضرورت تو اس بات کی ہے کہ موبائل لے کر اس پر کام نکالنے کو حسبِ ضرورت اپنی باتوں پر جھوٹ کا تڑکا لگا کر ان کو مصالحہ دار بنایا جائے تاکہ چٹخارا محسوس ہو لذتِ زباں عش عش کر اٹھے۔ لینڈ لائن والے فون کا زمانہ تو پھر اچھا ہوا‘اس لئے کہ وہا ں بندہ اس قسم کا جھوٹ نہیں بول سکے گا‘ موبائل پر تو جس کو ملا ؤ‘وہ کہہ سکتا ہے کہ میں گھر پر نہیں ہوں۔ میں ذرا رشتہ داروں کے گھر آیا ہوں‘ مگر تار والے جمے ہوئے فون پر اس قسم کا جھوٹ جس کا تعلق زمین و مکاں کے ساتھ ہو بولنا آسان نہیں‘ جو فون پر بات کررہاہوگا‘لازمی ہے کہ وہ اپنے گھر ہی میں ہوگا‘ پھر جو قریب کے لوگ ہیں جو گھر آتے جاتے ہیں ان کویہ بھی پتا ہوگا کہ یہ شخص فون پر بات کرتے ہوئے اس وقت کہاں کھڑا ہوگا یابیٹھا ہوگا کیونکہ اس کو تار والے فون کی جگہ بھی تو معلوم ہوگی۔اصل میں ہم خود ٹھیک نہیں ہیں‘ ہمیں جو ایجاد ہاتھ میں مل جائے ہم اول تو اس کا بھرکس نکال دیتے ہیں اس کا اتنا غیر ضروری اور بے دریغ استعمال کرتے ہیں کہ اس میں خرابی آنا شروع ہوجاتی ہیں‘ پھر ہم الزام دھرتے ہیں کہ یہ شے خراب ہوگئی‘یہ کمپنی ہی سے خراب آئی ہے لیکن ہم میں سے کم لوگوں کو معلوم ہے کہ کسی چیز کو کس طرح اور کس حد تک استعمال کرنا چاہئے‘ پھر ہم میں سے بعض کے اخلاق و عادات پہلے سے بگڑے ہوئے ہوتے ہیں‘جن کو درست راہوں پر ڈالنا جان جوکھم کا کام ہے ان کو کوئی سدھار نہیں سکتا‘ ہم میں سے بعض کوکوئی نئی سہولت مل جائے ہم اس کو خوب تاراج کرتے ہیں پھر وہ ہماری عادتوں کو درست بھی تو نہیں کرسکتیں‘چاہئے تو یہ ہے کہ ایک سہولت ملی تو ہم اس کو عزیز جاں سمجھیں جیسا کہ اس کا حق ہے اس کو اسی طرح استعمال کریں‘ مطلب یہ نہیں کہ ہم میں اگر جھوٹ کی عادت پہلے سے پوشیدہ ہے تو موبائل پر ہم پے درپے جھوٹ بول کر اپنی آخرت خراب کرتے ہوں‘قربان جاؤں سچ بہت اچھی چیز ہے۔ اگر سچ بولنا سچ لکھنا شروع کردیں تو اس میں بہت برکت ہوتی ہے‘آپ کی راہیں خود بخود سیدھی ہوتی جاتی ہیں کیونکہ پھر یہ مسئلہ بھی تو ہے کہ ایک جھوٹ کو چھپانے کی خاطر ایک اور نیاجھوٹ اس کے ساتھ نتھی کر کے بولنا پڑتا ہے تاکہ وہ پرانے والا جھوٹ اپنی ناہمواری کے ساتھ اپنی نوک دار ملائمت پر قائم رہے کیونکہ ہماری بنیاد میں جھوٹ ہے ایک بندہ اگر جھوٹا ہے تو بس یہ کافی ہے کہ اس کی عادات مزید خراب ہو جائیں۔ وہ خود کسی طرف کا نہ رہے اور پھر کسی اور کو بھی جو اس کے ساتھ رات دن کے تعلق دار ہیں کہیں کا نہ چھوڑے؛ اپنا اعتبار بھی خراب کر لے اور اپنے متعلقین کی رسوائی کا سبب بھی بنے۔ہمارے ہاں اتنا سا جھوٹ جیسے آٹے میں نمک ہو بول لینا تو کوئی بڑی بات نہیں کہ میں اسلام آباد میں ہوں مگر جہاں نمک کاذائقہ پوری ہنڈیا کا ذائقہ بدل لیتا ہے وہا ں یہی جھوٹ بعض اوقات پورے معاشرے کو داغدا رکر رہاہوتا ہے ا س کی مٹھاس میں زہر بھرتا ہے مگر ہمیں اس کی آہستہ رفتا رکا علم نہیں ہو پاتا‘پھر یہی کڑواہٹ ہماری زندگیوں میں آ موجود ہوتی ہے‘ویسے تو ہم زندگی میں روزمرہ کی بنیادپر لاتعداد جھوٹ بولتے رہتے ہیں مگر افسوس نئی ایجادات ہمارے اخلاق کو درست کرنے میں ابھی تک ناکام ثابت ہوئی ہیں کاش ایسا ہو کہ روز بروز نئی نئی چیزوں کا ایجاد ہونا اور جلوس کی شکل میں ہماری زندگی میں داخل ہونا برے انسانوں کو اچھے آدمیوں میں تبدیل کر دے۔