وطن عزیز کا وہ صوبہ جو آج خیبر پختونخوا کہلاتا ہے اور جو ماضی میں فرنٹیئر اور صوبہ سرحد بھی کہلاتا تھا نے زندگی کے ہر میدان میں ایسے ایسے لوگ پیدا کئے کہ جن کا ان کی فیلڈ میں کوئی ثانی نہیں ملتا وہ سب اس قابل ہیں کہ ان کو ہمارا میڈیا کم از کم ہر سال ان کے یوم ولادت اور وفات کہ دن یاد رکھے اور ان کی یاد میں خصوصی دستاویزی فلمیں ٹیلی کاسٹ کرے اور خصوصی فیچر لکھے تا کہ ہماری نئی نسل کوان کی اس محنت شاقہ اور لگن کا اندازہو کہ جو انہوں نے ا پنے اپنے شعبے میں کار ہائے نمایاں سر انجام دینے کیلئے کی۔ اس کالم کے محدود حجم کے پیش نظر یہ تو شاید ممکن نہ ہو سکے کہ ان کے کار ناموں کا تفصیلی احاطہ کیا جا سکے پرہم یہ کوشش ضرور کریں گے کہ ان کے کاموں اور خدمات کا ایک سرسری جائزہ لیں۔ کھیل کے میدان کا جب ہم ذکر کرتے ہیں تو سکواش اور ہاکی کا ذکر کئے بغیر نہیں رہ سکتے کیونکہ یہ وہ دو کھیل ہیں کہ جن میں ایک لمبے عرصے تک ہم بلا شرکت غیرے دنیا پر راج کرتے رہے۔
پشاور کے نزدیک نواں کلی نامی ایک گاؤں ہے کہ جس نے ہاشم خان‘اعظم خان‘روشن خان‘ ہدایت جہان اور پھر ان کی اگلی نسل میں جہانگیر خان‘جان شیر خان اور قمر زمان جیسے ایسے کھلاڑی دئیے کہ جنہوں نے کئی دہائیوں تک سکواش کے کھیل میں دنیا پر راج کیا جب تک وہ کھیلتے رہے۔ دنیا کا کوئی بھی سکواش کا کھلاڑی ان کے خاک پا کے قریب کے برابر بھی نہ پہنچ سکا۔ہاکی کا ذکر لالہ ایوب کے ذکر کے بغیر نا ممکن ہے وہ نہ صرف یہ کہ خود ہاکی کے کھلاڑی تھے ایک اچھے ہاکی کوچ بھی تھے اور ایک عرصے تک انہوں نے سپین کی حکومت کی درخواست پر سپین کی ہاکی ٹیم کی کوچنگ بھی کی تھی۔ لالہ ایوب فرنٹئیر میں ہاکی کے روح رواں تھے اور بہت کم لوگوں کو پتہ ہے کہ وہ اس پاکستانی ہاکی ٹیم کے سلیکٹر بھی تھے کہ جس نے 1960 کے روم میں منعقدہ ورلڈ ہاکی اولمپکس میں پاکستان کو گولڈ میڈل دلوایا تھا۔ زیڈ اے بخاری کو ریڈیو کا ہر سامع جانتا ہے ان جیسا براڈکاسٹر ریڈیو پاکستان نے پھر نہ دیکھا اس طرح ان کے بڑے بھائی پطرس بخاری جیسا معلم اور سفارت کار محکمہ تعلیم اور وزارت خارجہ کو پھر نصیب نہ ہوا ان کا تعلق بھی پشاور سے ہی تھا۔
بین لاقوامی شہرت کے حامل مصور اور سنگترا ش گل جی کی جم پل بھی تو کریم پورہ پشاور کی تھی۔ حمید گل جیسا خوبرو اداکار بالی وڈ نے نہیں دیکھا وہ اس دور کے سپر سٹار تھے کہ جب خاموش فلمیں یعنی silent movies بنا کرتی تھیں۔ وہ عالم شباب میں اس دنیا سے کوچ کر گئے تھے ان کا تعلق پیرپیائی نوشہر ہ سے تھا اور ان کی اخری آ رامگاہ بھی امان گڑھ کے قریب ہے جہاں وہ 1931 سے آ سودہ خاک ہیں۔اب کچھ تذکرہ دیگر اہم امور کا ہو جائے جس میں سب سے اہم تو پاکستان کا گرے لسٹ سے نکلنے کے روشن امکانات ہیں۔اکتوبر میں ایف اے ٹی ایف حکام کے ایک رسمی دورے کے دوران شاید یہ مرحلہ طے ہوجائے۔فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے برلن میں منعقدہ تین روزہ اجلاس میں پاکستانی حکومت کے کچھ اعلی عہدے داروں نے بھی شرکت کی۔بعض ماہرین کے خیال میں گرے لسٹ سے نکلنے کے بعد پاکستان کے لئے معاشی اور مالی فوائد کے راستے کھل سکتے ہیں۔فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے اجلاس کے بعد پاکستان کے کئی حلقوں میں گرے لسٹ سے نکلنے کے امکانات پر بحث ہو رہی ہے اور دوسری طرف کچھ ماہرین اس بات پر بھی غور و فکر کر رہے ہیں کہ اگر پاکستان اس لسٹ سے نکل جاتا ہے تو اسے کس نوعیت کے معاشی، سیاسی اور مالی فائدہ ہو سکتے ہیں۔
واضح رہے کہ پاکستان گزشتہ کچھ برسوں سے ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں ہے، جسے مبصرین سیاسی حربہ قرار دیتے ہیں اور انڈیا اس حوالے سے کافی سرگرم تھا۔معاشی اور مالی امور کے ماہرین اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیتے ہیں اور ان کے خیال میں گرے لسٹ سے نکلنے کے بعد پاکستان کے لئے معاشی اور مالی فوائد کے راستے کھل سکتے ہیں۔ اگر پاکستان ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکل جاتا ہے، تو اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ ملک کی ساکھ بہتر ہوگی۔ گرے لسٹ میں ہونے کی وجہ سے آپ کے بینکنگ نظام اور مالی نظام پر سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔ اگر پاکستان کو گرے لسٹ سے ہٹا دیا جاتا ہے تو ان سوالات کی گنجائش بھی نہیں رہے گی اور منی لانڈرنگ کے حوالے سے جو اعتراضات اٹھائے جارہے تھے، ان اعتراضات کا بھی خاتمہ ہو جائے گا، جس سے سرمایہ کاروں کا پاکستان کی مارکیٹ پر اعتماد بڑھے گا اور ممکنہ طور پر ملک میں مزید سرمایہ کاری آسکتی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں سے نکلنے کے بعد پاکستان کیلئے یورپی ممالک کی سرمایہ کاری کی راہ ہموار ہوسکتی ہے اورکئی مغربی ممالک کے کی سرمایہ کار سیاحت، مذہبی سیاحت اور دوسرے شعبہ جات میں سرمایہ کاری کر سکتے ہیں۔ اگر حکومت نے اس حوالے سے مناسب پالیسی بنائی تو قومی امکان ہے کہ وہ ان کو پاکستان کی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب ہو جائے۔