درآمدی ایندھن پر پاکستان کا انحصار اس کی توانائی کی سلامتی کیلئے سنگین کمزوری کی نشاندہی کرتا ہے۔ ایندھن کے زیادہ تر ذرائع امریکہ اور مغرب کے زیراثر ہیں اور اِن پر انحصار خدشات کو جنم دے رہا ہے کہ یہ انحصار پاکستانی پالیسی پر غیر ملکی ریاستوں کو کس حد تک مسلط (اثرانداز) رکھتا ہے جبکہ پاکستان کی مارکیٹ میں ایندھن کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کی وجہ معاشی مسائل جنم لے رہے ہیں اور ایندھن کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے پاکستان میں مہنگائی کی نئی لہر سے ہر خاص و عام متاثر (عاجز) دکھائی دے رہا ہے! پاکستان کو ایندھن چاہئے اور یہ ایندھن کم قیمت ہونا چاہئے اِس مقصد کیلئے روس سے درآمدات کے لئے بات چیت مختلف مراحل میں جاری ہے اور اگر پاکستان یوکرین کی دلدل میں پھنسے روس سے کم قیمت پر ایندھن و اجناس خریدنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو اِس سے مہنگائی کی شرح کم ہو یا نہ ہو لیکن یہ بات یقینی ہوگی کہ مہنگائی کی شرح مزید نہیں بڑھے گی۔
تاہم روس سے کوئی بھی تجارتی معاہدہ آسان نہیں کیونکہ روس بین الاقوامی اقتصادی پابندیوں کے نشانے پر ہے اور ایسی صورت میں روس سے تجارتی معاہدہ پاکستان کی عالمی مشکلات میں اضافے کا باعث ہوگا۔ اقوام متحدہ کے چارٹر (باب ہفتم‘ آرٹیکل اکتالیس) میں سلامتی کونسل کو بین الاقوامی امن و سلامتی برقرار رکھنے کے لئے اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کا اختیار حاصل ہے لیکن چونکہ روس سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان میں سے ایک ہے اِس لئے اُس کے خلاف اقوام متحدہ کے محاذ پر یک طرفہ تجارتی و اقتصادی پابندیاں عائد آسان نہیں ہوگا اور ایسی کسی کوشش کو روس ’ویٹو‘ کرنے کا اپنا اختیار استعمال کر کے رد کر سکتا ہے یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ کی مؤثر پابندیوں کی عدم موجودگی سے روس مخالف ممالک کے اتحاد نے دیگر حربوں کا استعمال کرتے ہوئے مخصوص پابندیاں عائد کرنے کی طرف توجہ مرکوز کر رکھی ہے۔
روس کو جن اقتصادی پابندیوں کا سامنا ہے اُن میں سب سے زیادہ پابندیاں یورپی یونین کی طرف سے ہیں جو سمندری راستے سے روسی تیل درآمد کرتے ہیں تاہم سمندری راستے کے روس بہت کم تیل برآمد کیا جاتا ہے اور روسی تیل کی ترسیل یورپی یونین ممالک میں پائپ لائن کے ذریعے ہوتی ہے۔ ذہن نشین رہے کہ یورپی یونین اپنے تیل کی 40 فیصد ضروریات کیلئے روس پر انحصار کر رہا ہے اور روس یوکرین باقاعدہ جنگ کے آغاز (24 فروری 2022ء) سے یورپی یونین کے ممالک بھی اپنی توانائی کی ضروریات پورا کرنے کے لئے پریشان ہیں۔ امریکہ نے تمام روسی پیٹرولیم مصنوعات کی درآمدات پر پابندی عائد کر رکھی ہے جبکہ برطانیہ نے رواں سال (دوہزاربائیس) کے آخر تک روسی تیل کی درآمدات مرحلہ وار ختم کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔
اِس منظرنامے میں اگرچہ کوئی بھی عالمی معاہدہ یا اقتصادی پابندی پاکستان کو روس سے پیٹرولیم مصنوعات یا دیگر اشیا خریدنے سے نہیں روکتی لیکن چونکہ پاکستان کی معیشت قرضوں پر انحصار کرتی ہے اِس لئے قرض دینے والے ممالک اور ادارے روس کے ساتھ تجارت کے حوالے سے اپنی ناپسندیدگی سے پاکستان کو پہلے ہی آگاہ کر چکے ہیں امریکی محکمہ خزانہ کا دفتر برائے غیر ملکی اثاثہ جات کنٹرول صدر کی جانب سے جاری کردہ متعدد ایگزیکٹو احکامات اور وفاقی قانون سازی کے ذریعے روس کے خلاف عائد کردہ بعض امریکی پابندیاں یورپی ممالک بھی من و عن اپنا رہے ہیں جبکہ امریکہ اور یورپی یونین کے ممالک میں روس کے ساتھ تجارت روکنے کے اقدامات پر بحث جاری ہے تاکہ روس کی آمدنی میں کمی لا کر اور اُس پر ثانوی اقتصادی پابندیوں کے ذریعے دباؤ ڈال کر ’یوکرائن میں جنگ بندی‘ کروائی جا سکے لیکن اب تک سلسلے میں کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے۔