تائیوان پر چین امریکہ کشیدگی

چین اور تائیوان کے درمیان حالیہ دنوں میں کشیدگی میں اضافے کے بعد تائیوان پر چین اور امریکہ کے درمیان کشیدگی بھی بڑھنے لگی ہے اور چین نے امریکہ کو تائیوان پر خبردار کردیا ہے۔ابھی تک یہ مکمل واضح نہیں کہ تائیوان اور چین کے درمیان کسی عسکری جھڑپ کا کتنا اور کب تک امکان ہے مگر تائیوان کے وزیر دفاع کے مطابق چین کے ساتھ ہمارے تعلقات جس قدر خراب آج ہیں، گزشتہ 40 برس میں نہیں ہوئے اور جنگ کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے۔خطرہ یہ ہے کہ اگر چین نے تائیوان پر حملہ کر دیا تو امریکہ اس کے دفاع کو آسکتا ہے جس سے چین امریکی جنگ چھڑ سکتی ہے۔ تو کیا چین جو عالمی معیشت پر حاوی ہونے میں مگن ہے اور تنازعات سے خود کو بچانے کا متمنی ہے کیا ایسا کرسکتا ہے۔ چین کو معلوم ہے کہ ایسا کرنا اس کیلئے اور دنیا بھرکیلئے خطرناک ہوگا۔
 چین تائیوان کو اپنا اٹوٹ انگ کہتا ہے اور کہتا ہے یہ جلد چین کا حصہ ہوگا مگر بہرحال یہ اس کے پرامن الحاق کا داعی رہا ہے اور کہتا ہے جنگ وہ مجبوری میں ہی لڑے گا۔ان کے درمیان الفاظ کی جنگ جاری ہے مگر خدشہ ہے حقیقی جنگ میں تبدیل ہو جائے گی۔ ایٹمی طاقت ہونے کے باعث ان کا تصادم ان کیلئے اور دنیا کیلئے تباہی کا باعث ہوگا جبکہ دونوں کے درمیان تعاون سے دنیا بھر کو فائدہ ہوگا۔ اس لیے امکان ہے کہ چین اور امریکہ ایک دوسرے پر الفاظ کے ہتھوڑے برساتے رہیں گے مگر جنگ سے گریز کریں گے۔چینی وزیر دفاع جنرل وائی فینگے کے مطابق چین تائیوان کو پرامن طریقے سے اپنا حصہ بنانے کا ارادہ رکھتا ہے مگر کوئی غلط فہمی میں نہ رہے۔
چینی فوج تائیوان کی آزادی کی کسی بھی سازش کو کچلنے کی صلاحیت اور مصمم ارادہ رکھتی ہے اور اسے روکنے کیلئے جنگ کرنے سے بھی دریغ نہیں کریگی۔اگرچہ امریکی سیکرٹری دفاع لائیڈ آسٹن نے کہا امریکہ تائیوان کی آزادی کی حمایت نہیں کرتا اور ایک چین اصول پر قائم ہے جو تائیوان پر چین کی سوچ سمجھتا تو ہے مگر اس کی تائید نہیں کرتا۔تاہم چینی وزیر دفاع نے کہا چین ان یقین دہانیوں پر بھروسہ نہیں کرتا۔ انہوں نے آسٹن کو امریکہ کی جانب سے تائیوان کو 120 ملین ڈالرز کے تازہ اسلحہ پیکج پر شکایت کی اور اس پر ممکنہ تنازعہ پیدا ہونے سے خبردار کیا۔
 وائی کے بقول تائیوان کو امریکی اسلحہ کی ترسیل چین کی اقتدار اعلی اور سلامتی مفادات کو سخت زک پہنچا سکتی ہے‘چنانچہ چین اس کی سخت مخالفت اور مذمت کرتا ہے۔وائی نے تائیوان کے ذریعے چین کو قابو کرنے کے ارادوں اور کوششوں پر خبردار کیا اور امریکہ کو تعلقات بہتر کرنے کیلئے شرائط بتائے جن میں امریکہ کو چین کے اندرونی معاملات میں مداخلت اور چین کے مفادات کو گزند پہنچانے سے احتراز کرنے کا کہا۔ جب کہ آسٹن نے اس بات کی ضرورت پر اصرار کیا کہ دونوں ممالک کو ذمہ دارنہ طریقے سے مسابقت کرنے اور رابطے کے کھلے لائن بنانے ہوں گے۔ انہوں نے چین کو تائیوان کے قریب اس کی اشتعال انگیز اور عدم استحکام پیدا کرنے والی سرگرمیوں پر خبردار کیا۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے چند روز پیشتر کہا تھا چین تائیوان کی سرحدی حدود کے قریب اپنے جنگی جہاز اڑا کر خطرے سے کھیل رہا ہے۔ انھوں نے اس عزم کو دہرایا تھا کہ اگر تائیوان پر حملہ کیا گیا تو امریکہ اس کا دفاع کرے گا۔ گذشتہ ہفتوں میں چین نے تائیوان کی فضائی حدود میں اپنے جنگی جہاز بھیجے تو امریکہ نے تائیوان کے پانیوں میں اپنے جنگی بحری جہاز اتار دئیے۔ امریکی سیکرٹری دفاع کے مطابق چینی جہازوں کی تائیوان کی فضاؤں میں پروازوں سے خطے میں امن اور استحکام کو نقصان پہنچ رہا ہے اور یہ کہ کشیدگی ختم کرنے کیلئے طاقت کے استعمال سے ہر صورت گریز کرنا ہوگا۔امریکہ اور چین کے درمیان عالمی سطح پر سیاسی، سفارتی، معاشی اور عسکری طاقت اور اثرورسوخ میں اضافے اور دوسرے کو محدود کرنے کیلئے مسابقہ جاری ہے۔ اگرچہ بحر ہند اور اس سے پرے عسکری اثر و رسوخ بڑھانے کی چینی کوشش بھی دونوں ممالک کے درمیان کشمکش کا باعث رہی ہے مگر تائیوان اور بحیرہ جنوبی چین بالخصوص دونوں کے مابین کشیدگی کا باعث ہیں۔
امریکہ اور اس کے اتحادی بین الاقوامی فضا میں نگران جہازوں بارے چین کے اقدامات اور ان کے بقول چین کی جانب سے غیرملکی بحری جہازوں کو بین الاقوامی پانیوں میں روکے جانے پر بھی خوش نہیں ہیں۔ یاد رہے آبنائے تائیوان اور بحیرہ جنوبی چین کے ذریعے ایک تہائی سے زیادہ عالمی تجارت ہوتی ہے اور جسے چین اپنی عالمی بالادستی کے عزائم کی علامت سمجھتا جبکہ امریکہ غالب سمندری طاقت ہونے کی بنا پر یہاں بالادستی چاہتا ہے۔تائیوان روز مرہ کے الیکٹرانک آلات میں لگنے والی چِپس کا بڑا پیداواری مرکز ہے اور اس صنعت کی مالیت 100 ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔
 امریکہ چین پر سنکیانگ اور ہانگ کانگ میں انسانی حقوق، تائیوان میں اس کے جارحانہ اقدامات، امریکہ پر سائبر حملوں اور امریکہ کے اتحادیوں پر اقتصادی دبا پر تنقید کرتا ہے جبکہ چین امریکی عہدیداروں کے حقارت آمیز رویے اور دوسرے ممالک کو اپنی مالیاتی برتری اور فوجی قوت سے دبانے کی کوششوں کی شکایت کرتا ہے۔کشیدگی سے بچنے کیلئے امریکہ اور چین کو بحران سے نمٹنے کے طریقہ کار اور مواصلات کے پروٹوکول کا جائزہ لینا اور بحیرہ جنوبی چین میں جھڑپوں کو روکنے کیلئے اعتماد سازی کے اقدامات اٹھانے ہوں گے۔
امریکہ چین تعلقات میں ہمیشہ اتار چڑھا آتا رہا ہے۔ صدر نکسن سے صدر بل کلنٹن کے ادوار تک تعلقات اکثر تعاون پر مبنی تھے جو اوباما کے دور میں باہمی مقابلے میں بدل گئے۔ چند برسوں سے یہ تعلقات کشیدگی اور تصادم کی طرف جارہے ہیں۔ 1784میں امریکہ اور چین کے درمیان تجارت شروع ہوئی تھی۔ چین نے پہلی عالمی جنگ میں اتحادیوں کا ساتھ دیا۔
1950کی کوریا جنگ میں چین شمالی کوریا اور امریکہ جنوبی کوریا کا حامی تھا۔1954میں تائیوان کے معاملے پر امریکہ نے چین پر جوہری حملہ کرنے کی دھمکی دی جس پر چین سمجھوتے پر راضی ہوگیا لیکن 1964میں چین نے جوہری تجربہ کرلیا۔ 1980میں چین میں اقتصادی اصلاحات ہوئیں اور امریکہ نے معاشی مفادات کیلئے تائیوان کے مسئلے پر خاموشی اختیار کرلی۔ لیکن 1989میں تیانیمن سکوائر واقعے کے بعد امریکہ نے پھر چین پر پابندیاں لگا دیں۔ دو ہزار کی دہائی میں چین امریکہ تعلقات بہتر ہوئے تو چین دنیا کے دو تہائی ممالک کا سب سے بڑا اور امریکہ کا دوسرا بڑا تجارتی پارٹنر بن گیا۔