میری زبانِ قل

یہ میری زبانِ قلم ہے۔ چاہتا ہوں کہ اس زبان سے کسی کا دل نہ دکھے۔میر انیس کا شعر ہے”خیال خاطرِ احباب چاہئے ہر دم۔ انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو“۔کسی کی خوبیاں اگر ہوں توبیان میں لاؤں ناکہ کسی کی خامیاں آشکارا کروں۔کیونکہ سچ تو بولا جا سکتا ہے۔مگر بعض سچ بہت کڑوے اور کسیلے ہوتے ہیں۔ وہ سچ جس میں کسی کے عیب نکالے جائیں  ناپسندیدہ ہوتے ہیں۔اسی قلم کی زبان سے اگر کسی کے عیب چھپائے جائیں تو کتنا اچھا ہو۔شہد کی مکھی اچھی ہے کیونکہ وہ پھولوں کا رس چوس کر شہد بناتی ہے۔جبکہ عام مکھی تو انسان کے جسم کے گرد گھوم کر اس کے کسی زخم کو ڈھونڈتی ہے۔ اس پرچسپاں ہو کر زخم کو چوستی ہے۔وہاں سے اپنا مواد تلاش کرتی ہے۔کسی کے عیب ڈھونڈ کر نکالنااور دوسروں کو بتلانا یہی کام ہے۔ جبکہ کسی کی ذات کی خوبیوں کی تلاش شہد کی مکھی کاکام ہے۔
سچ بولنا اور دوسرے کے عیب نکالنے میں بہت فرق ہے۔کسی کو اپنے قلم سے رسوا کرنے کی کوشش کہیں بھی قابلِ تعریف نہیں۔ بلکہ دوسروں کی ستر پوشی دنیا و آخرت میں کامیابی کی کنجی ہے۔ کیا خوب شعر ہے ”میری زبان ِ قلم سے کسی کا دل نہ دکھے۔کسی کو شکوہ نہ ہو زیرِ آسماں مجھ سے“ چاہئے کہ بندہ اپنے آپ کو اس سے دور ہی رکھے۔ کسی کی یہ دل آزاری کرنا سمجھ رکھنے والوں کا شیوہ نہیں‘ اگر کسی کو قدرت نے ہاتھ دیئے ہیں تو اس کا مطلب یہ کہاں نکلتا ہے کہ وہ زمین سے پتھر اٹھا اٹھا کراگلے کو مارتا جائے۔
کیوں نہ وہ یہ کام کرے کہ راستے میں وہی پتھر جو کسی کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوں۔ جوکسی کو پاؤں الٹ جانے سے گرا سکتے ہوں اپنے ہاتھوں سے اٹھا کر ایک طرف کر دیئے جائیں۔ہر دور میں اس طرح کی  نیکی بجا لانے والوں کا مرتبہ پروردگار کے ہاں بہت بلند ہوتا ہے۔وہی لوگ جو دوسروں کی عزت افزائی کرتے ہیں ان کو مرتبہ مقام ملتا ہے۔اگر کسی کو مرتبہ مقام پہلے سے حاصل ہو تو وہ مزید بلند اقبال ہو جاتا ہے۔
ایک کہاوت ہے اور بہت خوبصورت ہے۔ پھر معانی کا ایک جہان ا س میں پوشیدہ ہے۔ وہ یہ ہے کہ ”رانی کو رانی کہا ہنس دی باندی کو باندی کہا رودی“اگر بادشاہ ملکہ کو ملکہ کہہ کر پکارتا ہے تو وہ فخرسے مسکراہٹ بکھیر دیتی ہے۔کیونکہ یہ ناز کرنے کا مقام ہے۔پھر یہ اس کی اصلیت نہیں ہے۔ یہ تو اس کا مقام ہے جو اس کو ملا ہوا ہے۔مگرباندی کو باندی کہہ کر پکارا جاتا ہے تو وہ کیوں رو دیتی ہے۔ اس لئے کہ  باندی کو اس کی اوقات یاددلائی جاتی ہے۔اس کو اس کی کم حیثیت بتلائی جاتی ہے۔جو اس کے لئے بادشاہ کے دربار میں باعثِ شرمندگی ہے۔
 جبکہ اسی دربار میں شان و شوکت کے عہدہ و مقام کی وجہ سے کسی کوپکارا جائے تو بلاشبہ وہ ملکہ ہو یا وزیر وزراء یا پھر امیر امرا ء میں سے ہو قابلِ تعریف اور قابلِ رشک بات ہے۔کیونکہ مالکِ ارض و سما خود دوسروں کے عیبوں پر پردہ ڈالنے والا ہے۔ستار العیوب وہ خاصیت ہے جو خالق کائنات کا وصف ہے۔تو پھرہم کیوں دوسروں کے کردار میں جان کر عیب تلاش کریں اور ڈھول بجا ئیں۔کیوں نہ انسانوں کے کردار کے وہ عیب جن کا تعلق اس کی ذات سے ہے موقع ہاتھ لگے تو ان پر پردہ ڈالیں۔اس کا بڑا اجر وثواب ظاہر کیا گیا ہے۔کسی ایک آنکھ والے کو کانا کہنا سچ ہی تو ہے مگر اس سچ سے ہزار گنا بہتر ہے کہ آدمی خاموش رہے۔ کیونکہ کسی کے عیب نکال کر اس کے ہاتھ پر رکھ دینا مالک کی ناراضی کو دعوت دینا ہے۔
اسی لئے تو جسمانی معذوری والے انسانوں کیلئے جدید دور میں ”سپیشل“کا لفظ ایجاد کیا گیا ہے۔تاکہ اگر کسی کے بارے میں لکھنا ہو تو اس کی معذوری کو اس کی شناخت نہ بنائیں۔بلکہ الٹا اس کو زیادہ عزت دیں۔ اس لئے کہ اس کی عزتِ نفس زخمی نہ ہو۔کیا اچھا ہو کہ ہم دوسروں کے عیب کے بجائے ان کی خوبیاں تلاش کریں ان کو فروغ دیں تاکہ عام پبلک ان کی خوبیوں کو دیکھ کر اسی راہ پر چلنے کی کوشش کرے۔ تاکہ معاشرہ فلا ح کی طرف گامزن ہو نہ کہ کسی کی ذات سے بدظن ہو۔
انسان خوبیوں خامیوں کا مجموعہ ہے۔اگر باری تعالیٰ کسی کی برائی کو چھپاتا ہے اس پر پردہ ڈالتا ہے تو ہمیں کیا ضرورت کہ ہم دو قدم آگے بڑھ کر اس پردے کو نوچ نوچ کر اتارتے پھریں۔قلم کی طاقت بہت بڑی طاقت ہے اگر کسی کو حاصل ہو۔ اس طاقت کا نامناسب استعمال کسی کا دل توڑ سکتا ہے۔