ترقی کا راستہ

ان دنوں اگر چہ مہنگائی کے حوالے سے شکایات آرہی ہیں تاہم کچھ اچھی خبریں بھی منتظر ہیں جس میں ایف اے ٹی ایف کی جانب سے پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنا ہے۔یہ کامیابی اہم ضرورہے  تاہم اس کے ساتھ ساتھ ہمیں ملک سے کرپشن کے خاتمے کے عمل کو بھی تسلسل سے جاری رکھنا ہوگا۔ جس نے وطن عزیز کی ترقی کو گہنا دیا ہے۔ چین میں ایک سرکاری تقریب ہو رہی تھی کہ جس میں مہمان خصوصی عظیم چینی رہنما ماؤزے تنگ تھے ان دنوں بیجنگ کو پیکنگ کہا جاتا تھا وہاں پر ان دنوں متعین ہمارے سفیر راوی ہیں کہ ان کی جب ماؤزئے تنگ کے جوتوں پر نظر پڑی تو انہیں لگا کہ وہ کافی پرانے ہیں اور ان میں جگہ جگہ چمڑے کے پیوند لگے ہوئے ہیں‘تقریب کے اختتام پر ہمارے سفیرنے مسکرا کر وہاں موجود کمیونسٹ پارٹی کے ایک سینئر اہلکار سے کہا کہ آپ اتنے غریب بھی نہیں کہ اپنے چیئرمین کیلئے نئے جوتوں کا ایک جوڑا نہ خرید سکیں۔
اس نے جواب دیا کہ نہیں بھئی یہ بات نہیں دراصل دو سال قبل ماؤزے تنگ جب ایک کارخانے کے معاہدے کیلئے گئے تو وہاں انہوں نے دیکھا کہ کئی مزدور ننگے پاؤں کام کر رہے ہیں جب انہوں نے اس کی وجہ دریافت کی تو مزدوروں نے انہیں بتایا کہ وہ جوتے خریدنا افورڈ نہیں کرسکتے اس پر ماؤزے تنگ نے وہاں قسم کھائی کہ وہ بھی اس وقت تک نیا جوتا نہیں خریدیں گے جب تک چین کا ہر مزدور مالی طور پر اس قابل نہ ہو جائے کہ وہ اپنے لئے بوٹ خرید ے‘ چین ان معدودے چند ممالک میں ہے کہ جن کو دیانتدار قیادت نصیب ہوئی حالانکہ جب ماؤزے تنگ اور انکے کامریڈوں کے ہاتھ 1949ء میں سرخ انقلاب کے بعد اقتدار آیا تو اگر ایک طرف چین کی آبادی بے تحاشابڑھ چکی تھی تودوسری طرف اسکی معاشی حالت ناگفتہ بہ تھی۔
 خدانے ماؤزے تنگ کو ایسے رفقائے کار عطاء کئے تھے کہ جو انکے وفادار بھی تھے اور چاہنے والے بھی اور پھردنیا نے دیکھا کہ ماؤزے تنگ اور ان کے رفقاء نے چین کی معیشت کی بنیادیں اتنی مضبوط کیں کہ بعد میں آنیوالے چینی رہنماؤں کو کافی آسانی ہوئی کہ وہ انکے اوپر عظیم الشان ڈھانچہ کھڑا کر سکیں‘ یہ درست ہے کہ چین نے چینی لیڈر ڈینگ ژیا پونگ کے دور حکومت میں 1978ء اور1989ء کے درمیان زبردست معاشی ترقی کی لیکن اگر ماؤزے تنگ اور چو این لائی اور انکے دیگر رفقاء1949ء اور 1977ء کے درمیانی عرصے میں مناسب ہوم ورک نہ کرتے تو یہ ترقی ممکن نہ تھی‘ سادگی اور قناعت کا اسی قسم کا نمونہ کئی اور رہنماؤں نے بھی پیش کیا۔‘ان کا رہن سہن کا طریقہ اور بودوباش اتنی سادہ تھی کہ یہ لگتا ہی نہ تھا کہ وہ اپنے اپنے ملک کے سربراہ ہیں۔
 کسی نے   بڑے پتے کی بات کی ہے کہ وہ اس چیز کا بغور مطالعہ کریں کہ آخر چین نے اپنے ہاں کرپشن کو حیرت انگیز طور پر کیسے کم کیا چین نے کرپشن کو ایسے کم کیا کہ وہاں مالی کرپشن میں ملوث افراد بھلے وہ کسی بھی طبقے سے تعلق کیوں نہ رکھتے ہوں  ان کو عبرت ناک سزائیں دی گئیں۔ جب تک جزا و سزا کے عمل پر سختی سے عمل درآمد نہ کیا جائے  کرپشن سمیت دیگر جرائم کم ہو ہی نہیں سکتے‘ آپ اس ملک میں قومی خزانہ لوٹنے والوں کو سخت سزادے کر دیکھیں اور ان کی پراپرٹی کو ضبط کرکے نیلام کرکے تو دیکھیں اس میں کوئی شک نہیں کہ کرپشن سے دیگر جرائم کو راستہ ملتا ہے اور معاشرے میں جو برائیاں پروان چڑھتی ہیں ان میں بھی کرپشن کا ہاتھ ہوتا ہے۔