فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) نے برلن میں منعقدہ اپنے چار روزہ اجلاس کے بعد پاکستان کو خوشخبری سنائی ہے کہ اس نے چونتیس نکات پر مشتمل 2 ایکشن پلانز کے تمام نکات پر عمل کرلیا ہے اور اس کی کارکردگی بہترین رہی ہے۔ ایف اے ٹی ایف کی ٹیم جلد پاکستان کا دورہ کرے گی جبکہ پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے کا اعلان اکتوبر میں کیا جائے گا۔پاکستان نے ٹیرر فنانسنگ کے ستائیس اور منی لانڈرنگ کے سات پوائنٹس پر عملدرآمد یقینی بنا کر ذمہ دار ریاست کا ثبوت دیا ہے جبکہ اِس ہدف کو حاصل کرنے میں افوج پاکستان نے کلیدی کردار ادا کیا جنہوں نے حکومت اور قومی اداروں کے ساتھ مل کر تمام نکات پر عملدرآمد یقینی بنایا۔ اس کے برعکس بھارت کی کوشش تھی کہ پاکستان کو ہر حال میں بلیک لسٹ کر دیا جائے تاہم پاک فوج نے اس کی یہ سازش ناکام بنا دی۔
جی ایچ کیو میں چیف آف آرمی سٹاف نے ایف اے ٹی ایف کے متعینہ اہداف پورے کرنے کیلئے حکومت سے مشاورت کے بعد ڈی جی ایم او کی سربراہی میں خصوصی سیل قائم کیا تھا۔ جب اس سیل نے ذمہ داری سنبھالی تو اس وقت تک صرف پانچ نکات پر پیش رفت ہوئی تھی۔ اس سیل نے تیس سے زائد محکموں اور وزارتوں اور ایجنسیز کے درمیان کوآرڈی نیشن میکنزم بنایا اور ان سے ہر پوائنٹ پر مکمل ایکشن پلان بنا کر عملدرآمد بھی کرایا۔ اس طرح پاکستان نے اپنا دوہزاراکیس کا ایکشن پلان فیٹف کی طرف سے مقررہ ڈیڈلائن جنوری دوہزارتیئس سے بھی پہلے مکمل کرلیا۔ اب بائیس اکتوبر تک پاکستان کی وائٹ لسٹنگ کی راہ ہموار ہو جائے گی۔
پاکستان نے گرے لسٹ سے نکلنے کیلئے ’ایف اے ٹی ایف‘ کی طرف سے دیا گیا مشکل ٹارگٹ یقینا اپنی مستعدو مشاق افواج کی محنت ِشاقہ سے پورا کرکے قوم کیلئے سرخروئی کا اہتمام کیا ہے تاہم ایف اے ٹی ایف کی جانب سے یہ طرزعمل ہرگز قابل ستائش قرار نہیں دیا جا سکتا کہ ٹیرر فنانسنگ اور منی لانڈرنگ کے حوالے سے اس کے متعین کردہ ہر ہدف کو پورا کرنے کے باوجود پاکستان کو اکتوبر تک گرے لسٹ میں برقرار رکھنا ضروری سمجھا گیا ہے اور اس کا گرے لسٹ سے اخراج ایف اے ٹی ایف کی ٹیم کی جائزہ رپورٹ کے ساتھ مشروط کر دیا گیا ہے جو پاکستان کی کارکردگی سے مطمئن ہونے کے باوجود اس سے ایک طرح سے ڈومور کا تقاضا ہے۔
ٹیررز فنانسنگ اور منی لانڈرنگ کے جن معاملات کی بنیاد پر کسی ملک کو ایف اے ٹی ایف کی گرے یا بلیک لسٹ میں شامل کیا جاتا ہے‘ اگر اس کا غیرجانبداری اور دیانتداری کے ساتھ جائزہ لیا جائے تو بھارت کو بہت پہلے ایف اے ٹی ایف کی بلیک لسٹ میں شامل کرلیا جانا چاہئے تھا جس کے عالمی نمبرون دہشت گرد ہونے کا سرٹیفکیٹ امریکی مؤقر جریدے نے دہشت گردی کے فروغ کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں دیا۔
حد تو یہ ہے کہ بھارت میں غیرہندو اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو سرکاری سرپرستی اور فنڈنگ کے ساتھ دہشت گردی کا نشانہ بنایا اور ان کا قتل عام کیا جاتا ہے جس کا انکشاف و اعتراف سانحہ سمجھوتہ ایکسپریس کے حوالے سے بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلہ میں بھی کیا گیا ہے جبکہ سمجھوتہ ایکسپریس کی مسلمان مسافروں والی بوگی کو بھارت کے ایک حاضر سروس کرنل پروہت نے آگ لگائی۔ ایسی ہی دہشت گردی کی دیگر وارداتوں میں بھارت کی سرپرستی اور فنڈنگ تسلیم شدہ ہے اور بھارتی جاسوس کلبھوشن بھی پاکستان میں دہشت گردی کے لئے ”را“ کی معاونت اور سرپرستی حاصل ہونے کا اعتراف کر چکا ہے۔
یہ سارے شواہد اور ٹھوس ثبوت پاکستان کی جانب سے ایک ڈوزیئر کی شکل میں اقوام متحدہ اور امریکی دفتر خارجہ سمیت تمام عالمی اداروں اور عالمی قیادتوں کو پیش کئے گئے جو بھارت کے بلیک لسٹ ہونے کیلئے کافی ہونے چاہئیں تھے مگر کوئی عالمی ادارہ اس پر ٹس سے مس نہیں ہوا جو ان کے دہرے معیار کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ایف اے ٹی ایف کا مقصد منی لانڈرنگ اور ٹیرر فنانسنگ روکنا ہے جس کا کسی ملک کو ہدف دے کر اس کے ہاں مالیاتی نظم و ضبط کی نگرانی (مانیٹرنگ) کی جاتی ہے اور اس بنیاد پر ہی اسے گرے لسٹ میں شامل کیا جاتا ہے۔ اگر متعلقہ ملک مقررہ میعاد میں متعینہ اہداف پورے نہ کر سکے‘ اسے ایف اے ٹی ایف کی بلیک لسٹ میں شامل کیا جاتا ہے جس کی بنیاد پر اس پر عالمی پابندیاں عائد ہوتی ہیں۔
پاکستان کو جون دوہزاراٹھارہ میں ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں شامل کیا گیا جب ملک میں عام انتخابات کی مہم عروج پر تھی اور نگران حکومت تشکیل پا چکی تھی۔ اس وقت پاکستان بذات خود بدترین دہشت گردی کا شکار تھا اور ہماری سکیورٹی فورسز آخری دہشت گرد کے مارے جانے تک دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رکھنے کے عزم پر کاربند تھیں اور ملک و ملت کے تحفظ کیلئے اپنی جانیں نچھاور کررہی تھیں۔ اس تناظر میں پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کرنے کا ویسے ہی کوئی جواز موجود نہیں تھا مگر ایف اے ٹی ایف کے امریکہ اور بھارت کے زیراثر ارکان نے بھارتی بے بنیاد پراپیگنڈے پر ہی پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کیا اور پھر ناروا ٹارگٹس متعین کرکے پاکستان کے سر پر بلیک لسٹ ہونے کی تلوار بھی لٹکا دی گئی۔
اس کے باوجود پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کا ہر ہدف تندہی کے ساتھ متعینہ میعاد کے اندر پایہئ تکمیل کو پہنچایا جس کی خود ایف اے ٹی ایف کے صدر مارکس پلیئر نے ستائش کی ہے اور یہ امر واقعہ ہے کہ پاکستان کی اس سرخروئی کا سہرا ہماری افواج پاکستان کے سر ہی جاتا ہے جنہوں نے آج بھی ملک کو دہشت گردی کے ناسور سے پاک کرنے کی جنگ جاری رکھی ہوئی ہے۔ دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے پاکستان کا یہ کردار تو اقوام عالم کیلئے قابل تقلید ہونا چاہئے چہ جائیکہ اسے گرے لسٹ کی جانب دھکیلا جاتا جبکہ اس وقت بھی پاکستان کی جانب آنیوالے ٹھنڈی ہوا کے جھونکے ایف اے ٹی ایف کے دورہئ پاکستان کے ساتھ مشروط کر دیئے گئے ہیں جو یقینا دہرا معیار ہے۔