کھانے پینے کی چیزوں میں سے لذت اڑتی جاتی ہے‘بھلے آم ہوں اور غالب بھی موجود ہوں۔مگر وہ قول کہ آم میٹھے ہوں اور بہت ہوں پھر اس گرمی میں ٹھنڈے بھی کیوں نہ ہوں۔ مگر معاملہ یہ ہے کہ آم کھانا مشکل ہوگیا ہے۔بلکہ یہ کہ آم پھیکے کیوں نہ ہوں اور کم ہوں پھر گرم ہوں مگر ان آموں کو ریڑھی والے کے پاس کھڑے ہو کر خریدنا ہر آدمی کے بس کا کام نہیں رہا۔کیونکہ وہ آپ کو ان چمکتے آموں کو ہاتھ لگانے نہ دے گا۔ جو اس نے دکھانے کو اوپر رکھے ہیں۔ وہ جو دکھانے کو ہیں کھانے کونہیں ہیں۔ آپ کلو مانگیں مگر وہ آخر سے آم نکال کر انتہائی تیزی کے ساتھ شاپر میں ڈالے گا۔ آپ کے الفاظ ابھی منہ ہی میں ہوں گے کہ وہاں سے نہ ڈالو اوپر والے آم دو۔مگر وہ آپ کی ایک نہ سنے گا سنی کو ان سنی کر دے گا۔
بھلے آم سو روپے کلو والے کیوں نہ ہوں اور گلی میں بندہ موٹر سائیکل لوڈر پر رکھ کر بیچنے کو آیا ہو۔ مگر کیامعلوم ان آموں میں کیا ڈالا گیا ہو۔ بناوٹ کے اس زمانے میں جہاں انڈے بھی کارخانے میں بن کر یوں بازار میں فروخت ہوتے ہیں جیسے واقعی انڈے ہوں تو آموں پر شک کرنا کون سا غلط ہوگا۔انڈوں کے شوقین کارخانے میں بننے والے کتنے ہی اس قسم کے انڈے اب تک کھا چکے ہیں۔ مگر ان کو معلوم تک نہیں ہوا۔ اس لئے کیا معلوم آم کے اندر گودے کے نام پر کیا بھرا ہو۔کون سا کیمیکل ڈال کر آم کی شکل دی گئی ہے۔
جب کیمیکل کی چمچ بھر مقدار سے گلاس پانی کو دودھ بنایا جا سکتا ہے تو سمجھو زندہ آدمی کی آنکھوں سے دن کی روشنی میں سرمہ نکالنا آسان ہے۔ بلکہ اگلے کی آنکھوں میں گھسا جاسکتا ہے اور وہ بھی جوتیوں سمیت۔وہ زمانے گئے جب خلیل خان فاختہ اڑایا کرتے تھے اور میں کہوں فارغ ہو کر آم کھایا کرتے تھے۔جب بیس روپے کی روٹی لے کر کھانا بھی از حد دشوار ہو تو وہاں بندہ اتنی بڑی عیش کا مرتکب کیسے ہو سکتا ہے کہ کھائے بھی تو آم کھائے اور وہ بھی اس سیزن میں کہ خاص آم کھانے کے دن ہوں اور آم سو روپے والے ہوں۔ریڑھیوں پر آم رکھے فروخت کرنے والے تو موجود ہیں مگر آم خرید فرمانے والے کم سے کم ہو رہے ہیں۔ کیونکہ پٹرول کا ریٹ زیادہ سے زیادہ ہو رہا ہے۔
مجھے تو وہ قیدی یاد آرہا ہے۔جو جیل کی سلاخوں کے پیچھے اگر اپنی سزا کاٹ رہا تھا تو اچھاتھا۔اندر جیسے بھی سہی پانی والی دال توتھی۔ یہ دال تو قیدیو ں کیلئے گرانی کے اس دور میں ایک تحفہ ہے۔ وہ اسی لئے باہر نہیں جانا چاہتا تھا۔وہ قیدی جس کا ذکر ہوا جب سزا پوری کر چکاتوا س سے کہا جاؤ آج کے بعد تم آزاد ہو اور کوشش کرنا کہ ایک نیک آدمی بن کر بتلاؤ۔ مگر وہ اس سے انکاری ہو گیا۔یہ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک سچی ویڈیو کی داستان ہے۔اس کا اصرار تھا کہ میں جیل ہی میں رہنا چاہتا ہوں۔ ہوگا کوئی مزدور کار بندہ اور بیچارا پتھر ڈھوتا رہا ہوگا۔
وہ باہر جاکر پھر سے مشکلات بھری زندگی کیونکر گزارے۔ اس کو ہاتھ سے کھینچ کر باہر لانے کی کوشش کی گئی۔ مگر وہ اڑیل بیل کی طرح اپنی جگہ جم گیا۔ اس کو دوچار آدمی ضدی گائے کی طرح گھسیٹ کر باہر صحن تک لائے۔ مگر مجال ہے کہ وہ ٹس سے مس ہوتا ہواور اس کے چہرے پرشاداب ہوجانے کے آثا رہوں۔اس کی تو ہوائیاں اُڑی ہوئی تھیں۔بات ہو رہی تھی آم کی تو یہ خبر بھی لائق توجہ ہے کہ ملک میں اس سال آم کی پیداوار میں تشویشناک حد تک کمی آئی ہے اور اسے موسمیاتی تبدیلی کا نتیجہ قرار دیا جا رہا ہے یعنی جو آم اس وقت مل رہے ہیں ان کی لذت سے بھرپور استفادہ کیا جائے معلوم نہیں کہ پھر آم عام لوگوں کو میسر ہوں گے یہ نہیں۔