موسمیاتی تبدیلی 

؎یہ کلائمٹ چینج نہیں تو کیا ہے کہ جیٹھ اور ہاڑ کے مہینوں میں حبس اور بارش  ہو رہی ہے جن سے ہمیں واسطہ ماضی میں ساون  بھادوں یعنی جون جولائی اور اگست میں کہیں جا کر پڑا کرتا تھا۔ یہ خبر بھی تشویش ناک ہے کہ کورونا ایک مرتبہ پھر ملک میں سر اٹھا رہاہے  یہ بات تو طے ہے کہ سماجی فاصلے رکھنے  کے بغیر اس وبا کو پھیلنے سے روکا نہیں جا سکتا۔ لگ یہ رہا ہے کہ حکومت کو اسی طرح متحرک ہو کر اسی قسم  حفاظتی اقدامات اٹھانے ھوں گے جو ماضی میں اس وبا کا مقابلہ کرنے میں کافی کارگر ثابت ہوئے تھے۔ اس جملہ معترضہ کے بعد آ تے ہیں دنیا کی نیرنگی سیاست کی طرف جو لمحہ بہ لمحہ گرگٹ کی طرح رنگ بدل رہی ہے۔ کابل میں داعش کے حالیہ حملے سے  ثابت ہوتا ہے کہ خبط عظمت میں مبتلا بیرونی قوتیں ابھی تک اس خطے میں گریٹ گیم ختم کرنے کا بالکل ارادہ نہیں رکھتیں۔یعنی ابھی خطے میں امن کے قیام کا خواب شرمندہ تعبیر ہونا مشکل ہے۔خبر ہے کہ صوبائی حکومت  ملازمین کے بعد شہریوں کیلئے بھی صحت کارڈ کنٹریبیوشن سکیم لا رہی ہے  جو ہر لحاظ سے قابل ستائش ہے شہری اپنی خواہش اور استطاعت کے مطابق پیکج لے سکیں گے ابھی اس سکیم کے خدو خال واضح نہیں ہوئے ہیں اور اس کے بارے میں مشاورت کا عمل جاری ہے ہم یہاں پر یہ گزارش کریں گے کہ حکومت اس ضمن میں انگلستان میں  نصف صدی سے زیادہ عرصے سے نافذ العمل نیشنل ہیلتھ سروس کی سکیم سے فائدہ اٹھا کر بالکل اس طرح کی ہیلتھ سروس من و عن صوبے بلکہ ملک  بھر میں لاگو کیوں نہیں کرتی؟۔ نئے نئے تجربات سے تویہ بہتر ہوگا کہ ہماری وزارت صحت کی ایک ٹیم چند روزہ مطالعاتی دورے پر انگلستان جائے یہ دیکھنے کیلئے کہ وہ کس طرح اپنے ہر شہری کی طبی ضروریات کو احسن طریقے سے پورا کر رہے ہیں کہ جس کے  دنیا بھر میں گن گائے جاتے ہیں اور پھر اسی قسم کی طبی سہولیات وطن عزیز میں بھی لاگو کرے۔اب تذکرہ عالمی حالا ت کا ہو جائے۔اس خدشے کا  اظہار کیا جا رہا  ہے کہ یوکرین جنگ  طویل ہو سکتی  ہے اور اگر روس کامیاب ہوا تو  بہت بڑی قیمت ادا کرنا ہو گی
 اس ضمن میں جرمنی  میں ہنگامی اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں اور کوئلے پر انحصار زیادہ کر دیا گیا ہے  تا کہ روس سے گیس نہ خریدنی پڑے ایران میں بھی مہنگائی سر اٹھانے لگی ہے۔ برطانوی وزیراعظم کے مطابق طویل جنگ کیلئے خود کو تیار کرنا پڑے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ جنگ کی قیمت چاہے کچھ بھی ہو خوراک اور توانائی کے بڑھتے ہوئے  رحجان کے باوجود وہ یوکرین کی مدد کم نہیں کر سکتے کیونکہ اگر یوکرین کی جنگ جاری رہی تو دنیا جہنم بن جائے گی۔ یورپ چونکہ دو عالمگیر جنگوں اور ان کی تباہ کاریوں کو بھگتا چکا ہے لہٰذا  اس  کے لیڈر یوکرین اور روس کے درمیان جنگ کے ممکنہ نتائج سے کافی خائف ہیں اور وہ تیسری عالمگیر جنگ کے تصور سے بھی ڈرتے ہیں ان کو اس بات کا اندازہ ہے کہ چونکہ آج کئی ممالک کے پاس نیوکلیئر ہتھیاروں کی بھر مار ہے اس لئے اب کی دفعہ اگر جنگ چھڑتی ہے تو اس میں شایدہی کوئی زندہ بچے۔ اس لئے عالمی قیادت پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ تنازعات کو حل کرے تاکہ جنگ چھڑنے کا خطرہ نہ رہے۔