ڈیری مصنوعات کی برآمدات

کس نے کہا کہ گدھے کسی شمار میں نہیں آتے، ہم نے اس قول کو غلط ثا بت کیا ہے وطن عزیز پا کستان میں جوتا زہ صورت حال ہے اس کی رو سے گدھوں کی تعداد 57لا کھ ہو چکی ہے جبکہ گھوڑے ابھی 5لا کھ سے بھی کم ہیں اور یہ بات باقاعدہ جا نور شماری کے بعد با قاعدہ اعداد و شما ر اور با ضا بطہ ثبو توں کے ساتھ لکھی گئی ہے۔ا سکے ساتھ ساتھ مویشیوں کی تعداد میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے  اور یہ ایک حوصلہ افزاء رجحان ہے۔پاکستان کے رواں مالی سال کے اقتصادی سروے کی رپورٹ جاری کر دی گئی ہے جس کے مطابق ملک میں گدھوں کی تعداد میں ایک لاکھ کا اضافہ ہوا ہے جب کہ بھینسوں اور بھیڑ بکریوں کی تعداد بھی بڑھی ہے۔اقتصادی سروے رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال کے دوران گزشتہ سال کی نسبت گدھوں کی تعداد میں ایک لاکھ کا اضافہ ہوا ہے۔ اس وقت ملک میں گدھوں کی تعداد 57 لاکھ ہے۔ گدھوں کی تعداد میں مسلسل تیسرے سال اضافہ ہوا ہے‘رواں سال گھوڑوں کی تعداد چار لاکھ اور خچروں کی تعداد تین لاکھ پر برقرار رہی۔تفصیلات کے مطابق پاکستان میں گدھوں کی تعداد 56 لاکھ سے بڑھ کر 57 لاکھ ہو گئی ہے۔ایک سال میں بھینسوں کی تعداد میں بھی 13 لاکھ کا اضافہ ہوا ہے۔بھینسوں کی تعداد 4 کروڑ 24 لاکھ سے  بڑھ کر 4 کروڑ 37 لاکھ ہو گئی ہے۔رپورٹ کے مطابق ایک سال میں بھیڑوں کی تعداد میں 3 لاکھ کا اضافہ ہوا ہے جس کے بعد بھیڑوں کی تعداد 3 کروڑ 16  لاکھ سے  بڑھ کر 3 کروڑ 19 لاکھ ہو گئی ہے۔اسی طرح بکریوں کی تعداد میں 22 لاکھ کا اضافہ ہوا ہے۔بکریوں کی تعداد 8 کروڑ 3 لاکھ سے 8 کروڑ 25 لاکھ ہو گئی ہے۔جبکہ گھوڑوں‘ اونٹوں اور خچروں کی تعداد میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔گھوڑوں  4 لاکھ اور خچروں کی تعداد 2 لاکھ برقرار رہی۔ملک میں اونٹوں کی تعداد11لاکھ برقرار رہی۔ایک سال میں مویشیوں کی تعداد میں 19 لاکھ کا اضافہ ہوا ہے مویشیوں کی تعداد 5 کروڑ 15 لاکھ سے 5 کروڑ 34لاکھ ہو گئی ہے۔دودھ دینے والے مویشیوں کی تعداد میں اضافہ زرمبادلہ کمانے کے حوالے سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔اقوامِ متحدہ کے فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کے مطابق گزشتہ 3دہائیوں میں دنیا بھر میں دودھ کی پیداوار میں 59 فیصد سے زیادہ کا اضافہ ہوا ہے۔عالمی سطح پر دودھ کی کھپت میں اضافہ پاکستان جیسے ممالک کے لیے ایک موقع ہے جو دودھ اور ڈیری مصنوعات کو برآمد کرکے زرِ مبادلہ کما سکتے ہیں‘پاکستان ڈیری ایسوسی ایشن کے ایک اندازے کے مطابق اگر حکومتی امداد میسر ہو تو پاکستان صرف ڈیری مصنوعات اور دودھ کی برآمدات سے ہی 30ارب ڈالر کما سکتا ہے بدقسمتی سے یہ مواقع ضائع کیے جارہے ہیں۔ پاکستانی حکومت دنیا بھر میں ڈیری کے شعبے میں اپنائی گئی پالیسیوں سے بہت کچھ سیکھ سکتی ہے۔ نیوزی لینڈ میں دی ڈیری ٹومارو اسٹریٹجی کے نام سے ایک پروگرام موجود ہے جس میں خاص طور پر ڈیری کے شعبے کو درپیش چیلنجز اور دستیاب مواقع پر کام کیا جاتا ہے۔ ان میں مویشیوں کی صحت، ماحول کو سازگار رکھنا اور لوگوں کے طرزِ زندگی میں بہتری لانا شامل ہوتا ہے۔ انہوں نے یہ حکمتِ عملی ڈیری کے شعبے سے وابستہ افراد کی رائے کی روشنی میں ترتیب دی ہے اور پورے عمل میں ڈیری فارمرز کی رائے کو اہمیت دی گئی۔ پاکستان میں بھی اسی طرح کی کوئی کوشش سود مند ثابت ہوسکتی ہے۔مویشی بانی زراعت کا اہم جز ہے جس کا ملک کی معیشت میں 12 فی صد حصہ ہے اور پندرہ لاکھ خاندان اسی مویشی بانی سے وابستہ ہیں جو زندگی کی بنیادی ضرورتیں اسی سے پورا کرتے ہیں، دوسرے یہ کہ ملک میں گوشت اور دودھ کی فراہمی کا ذریعہ یہی شعبہ ہے پاکستان دودھ اور گوشت کی پیداوار میں دنیا میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔ پاکستان اپنی کوالٹی، پیکنگ اور بین الاقوامی معیارات کو پورا کرکے مشرقِ وسطی کے ممالک کو حلال گوشت کی برآمدات میں اضافہ کرکے بھاری زرمبادلہ حاصل کرسکتا ہے‘ حکومت کو چاہیے کہ وہ مقامی ضروریات مقامی ماحول مقامی ثقافت اور پوٹینشل کو سامنے رکھ کر پالیسیاں تشکیل دے۔ زراعت کو ترقی دینے کے لیے کثیر الجہتی پالیسی اختیار کی جائے۔ مویشی پالنا بھی زرعی معیشت کا اہم حصہ ہے اس کے ساتھ ساتھ درخت بھی دیہی معیشت کا اہم حصہ ہوتے ہیں حکومت کھیتی باڑی کے ساتھ ساتھ گلہ بانی  میں بھی کسانوں کی مدد کرے۔اس طرح کسان خوشحال ہو جائے گا۔