لوگوں نے تو خیر اب کتابیں پڑھنا ہی چھوڑ دی ہیں۔مگر بعض ہیں جو اب بھی کتابوں کے شوقین ہیں۔وہ تو کتابوں کو بیٹھک کے شوکیسوں میں لا کر سجادینے کی تمنا کرتے ہیں۔ پھر پڑھنے والے بھی تو موجود ہیں۔مگر کتابوں کوپڑھنے والوں کی تعداد روز بروز کم ہو رہی ہے۔زمانے نے ایسی کروٹ لی ہے کہ پرانی قدریں دم توڑتی نظر آتی ہیں۔میں کوئی شاعری کی کتاب جو پسندیدہ ہوتی اور خریدنے کو قصہ خوانی بازار میں ممتاز عسکری مرحوم کے پاس جاتا تووہاں بیٹھ کر قہوہ بھی پیتا۔ اتنی بے صبری ہوتی کہ وہ دیوان ہاتھ میں لئے چوک ناصر خان کی طرف گھر کو لوٹتا تو اتنے سے دو فرلانگ بھر کے راستے میں پیدل چلتے چلتے کتاب کو آخر تک پڑھ لیتا۔اتنے وقت میں شاعری کی چھوٹی موٹی کتاب پڑھنا آسان ہے مگر افسانوں وغیرہ کی کتاب کو پڑھنا ممکن نہیں۔ہاں شاعری سے ہٹ کر ناول وغیرہ کو دیکھ لینا ممکن ہے۔پھر شوق کی بات بھی ہے اور بے صبری بھی بہت ہوتی کہ جلد گھرپہنچوں اور ایک کونے میں گروں اور کتاب کو چھان لوں۔دنیا سے بے نیاز ہو کر کہ کون آر ہاہے کون جا رہاہے اسی بے تابی میں کافی سے زیادہ کتاب راستے ہی میں پڑھ لیتا۔پہلے کتاب خریدنا بھی تو آسان تھا۔ اب تو کتاب کیا تندور سے روٹی بھی لو اور پمپ کے پاس پٹرول ڈلواؤ تو پیسے پیسے کا حساب کرنا پڑتا ہے۔پھر یہ ہوا کہ اولڈ بک ہاؤس ایجاد ہوگئے۔ جہاں پرانی کتابیں جو کسی کی ضرورت پوری کر چکی ہوتی ہیں وہاں بیچنے کو رکھی گئی ہوتی ہے۔غالب کی ایک کتاب جو میں نے بیس سال پہلے وہاں سے خریدی تو ڈیڑھ سو روپے دیئے۔مول تول میں اس نے دو سو روپے قیمت بتلائی تھی۔بہت نادر نسخہ تھا۔ پرانے زمانے کا شاید ڈیڑھ سو سال پہلے کی رنگین کتاب تھی۔میں نے کتاب لے کر دل میں سوچا تھا کہ یہ اگر مجھ سے اس کتاب کے دوہزار بھی طلب کرتا تو میں بخوشی دے دیتا۔ لیکن اب ان پرانی کتابوں کے بیوپاری بہت سمجھ دارپھر کچھ زیادہ ہی سمجھ دار ہوگئے ہیں۔جانے ان کو کس نے ایک ایک کتاب کی اہمیت کے بارے میں اندر کے راز بتلا دیئے ہیں۔ اس طرح کہ بعض کتابوں کی قیمت جو زیادہ بتلاتے ہیں اس سے پچاس روپے نیچے تک آجائیں گے۔ مگر بعض تو اپنی ضد پر اڑ جاتے ہیں۔پھر وہ اپنی منہ مانگی رقم لے کر ہی کتاب دیتے ہیں۔میرا خیال ہے کہ ان کے پاس پڑھے لکھے بندے آ کر بیٹھتے ہیں جو ان کو کتابو ں کی اہمیت کے متعلق آگاہ کرتے ہیں۔ان کو موضوع کے اعتبار سے ان کی قیمت کا تعین بھی کر کے دیتے ہیں۔یا تو پھر یہ خود تعلیم یافتہ لوگوں کو دوست بنالیتے ہیں۔ وہاں دکان پر قہوے چلتے ہیں اور دکاندار کتابوں کی اپنی سی مہنگی قیمت لکھوا لیتے ہیں۔پھر ایسا بھی ممکن ہے کہ فی زمانہ یہ دکاندار خود اتنا پڑھ لکھ گئے ہیں کہ ان کو ٹاپک کے اعتبار سے کتاب کی قدرو قیمت کااندازہ ہو جاتاہے۔کیونکہ کتاب کے اوپر تو پرانے وقتوں کی قیمت ایک روپیہ یا پھر آٹھ آنے لکھی ہوتی ہے۔پھر آج کل کی مہنگائی نے بھی تو سارا کام خراب کر رکھا ہے۔ہر شئے جب مہنگی ہے تو سستی او رپرانی کتاب مزید ارزاں کیوں فروخت ہو۔یہ بھی تو مہنگی ہو جائے گی۔ یہ تو بازار کا اصول ہے کہ تاجر نے منافع کمانا ہے اور پھر گاہک کی اپنی سی ذہنیت ہے۔وہ دکاندار کی شئے کو حیلے بہانے سے اوراس کی اہمیت کو نیچا دکھا کر سستے نرخ میں حاصل کر لیتا ہے۔گاہک اور دکاندار ایک گیم کھیل رہے ہوتے ہوں۔ دونوں ایک دوسرے کو الفاظ کے ذریعے زیر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔اس مول تول اور بارگینگ میں خواتین بہت ماہر ہوتی ہیں۔ان کے پاس وقت بھی ہوتا ہے سو وہ اس ناتے دکاندار کو جُل دے کر اپنی سی قیمت پر چیزیں حاصل کر لیتی ہیں۔