گردوپیش سے تعلقی پر مبنی تعلق نظرثانی چاہتا ہے۔ معاشرے میں جو بے حسی اور نااہلی پائی جاتی ہے اس نے ایک اور ناگوار حد عبور کی ہے اور اِس مرتبہ اندرون سندھ کے ضلع تھرپارکر سے خبر آئی ہے جہاں بتیس سالہ خاتون کو زچگی کے دوران انتہائی تکلیف دہ مراحل و صدمات سے گزرنا پڑا ہے اور یہ حقیقت اپنی جگہ لائق توجہ ہے کہ پاکستان میں صحت عامہ کی دیکھ بھال سے متعلق سہولیات صرف ناکافی ہی نہیں بلکہ غیرمعیاری بھی ہیں‘مذکورہ خاتون کے ہاں جڑواں بچوں کی پیدائش ہونا تھی جس کیلئے ایک سادہ سا جراحت کا عمل دہرایا جاتا ہے لیکن بدقسمتی سے تھرپارکر کے شہر چاکرو کے ہسپتال میں طبی عملے کی نااہلی اور غفلت کی وجہ سے ایک نومولود بچی انتقال کر گئی لیکن صرف یہی صدمہ نہیں تھا بلکہ دوسرا جڑواں بچہ بھی زچگی کے دوران ہی انتقال کر گیا۔ خاتون کو حالت بگڑ گئی تو اُسے قریبی علاقے میتھی لایا گیا جہاں ایک اور آپریشن کیا گیا جس کیلئے اُسے حیدرآباد کے مرکزی ہسپتال لے جایا گیا یوں اس سانحے کا افسوسناک انجام حیدرآباد کے لیاقت یونیورسٹی ہسپتال میں ہوا۔ اگرچہ سندھ ہیلتھ سروسزکے ڈائریکٹر جنرل نے اِس پورے معاملے اور واقعات کی تحقیقات کا حکم دیا ہے لیکن اس سے سندھ اور ملک کے دیگر حصوں میں محکمہئ صحت کے فیصلہ سازوں کو بیدار ہو جانا چاہئے کیونکہ یہ انسانی جان کا معاملہ ہے۔
صحت کے حوالے سے قومی ترجیحات پر نظرثانی وقت کی اہم ضرورت ہے کیونکہ پاکستان کی آبادی (بائیس کروڑ) سے تجاوز کر چکی ہے لیکن اِس بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات کے تناسب سے ڈاکٹر اور علاج معالجے کی سہولیات میں اضافہ نہیں ہو رہا۔ آبادی کے تناسب و ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے فی الوقت فی الوقت 5 لاکھ ڈاکٹرز‘ 3 لاکھ دانتوں کے ڈاکٹرز (ڈینٹسٹس) اور 16 سے 17 لاکھ نرسوں (معاون طبی عملے) کی ضرورت ہے۔ عالمی معیار یہ ہے کہ ہر ایک ہزار افراد کے لئے 2 ڈاکٹر‘ ایک ڈینٹس اور 8 نرسیں ہونی چاہئیں۔ سرکاری اعدادوشمارکے مطابق پاکستان کے قریب 2 لاکھ 30 ہزار ڈاکٹر‘ 26 ہزار ڈینٹس اور قریب 2 لاکھ نرسیں ہیں۔ لمحہئ فکریہ ہے کہ پاکستان میں زچگی کے دوران‘ ہر ایک لاکھ زندہ پیدائشوں میں سے 186 بچوں کی اموات ہو جاتی ہیں اور یوں پاکستان ہر ایک ہزار نوزائیدہ بچوں میں سے 58.46 بچوں کی اموات ہو رہی ہیں جو انتہائی بلند نمبر ہے۔
درحقیقت اس وقت پاکستان کی صورتحال یہ ہے کہ جنوبی ایشیائی دیگر ممالک کے مقابلے نوزائیدہ بچوں کی دگنی شرح سے اموات پاکستان میں ہو رہی ہیں! صحت کی سہولیات کے معیاری ہونا لازم و ضروری ہے۔ انتہائی تکلیف دہ صورتحال ہے کہ پاکستان اپنے مجموعی خام آمدنی (گراس ڈومیسٹک پراڈکٹ GDP) کا بمشکل 1.2فیصد صحت کی دیکھ بھال پر خرچ کرتا ہے جو صحت عامہ کی دیکھ بھال کے قومی توجہ کے نہ ہونے کا ثبوت ہے۔ملک بھر میں زیادہ تر دیہی صحت مراکز (آر ایچ سی) گائناکالوجسٹ (ماہر زچگی) اور تربیت یافتہ خواتین عملے سے محروم ہیں۔ دیہی علاقوں کی علاج گاہوں میں زندگی بچانے والے ادویات اور طبی و معاون طبی عملے کی کمی ایک عمومی سی بات ہے اور ایسے درجنوں واقعات ذرائع ابلاغ میں رپورٹ بھی نہیں ہوتے! سندھ میں پیش آئے افسوسناک واقعے سے ضلعی ہیڈ کوارٹر ہسپتالوں (ڈی ایچ کیوز) میں دستیاب سہولیات کا بھی بھانڈا پھوٹ چکا ہے۔ ممکنہ اور فوری طور پر لیڈی ہیلتھ ورکرز کی تعیناتی اور علاج معالجے کی سہولیات میں اضافے کے ذریعے زچگی اور نومولود بچوں کی دیکھ بھال یقینی بنائی جا سکتی ہے۔ جدید طبی آلات کے ذریعے بھی زچگی کے عمل کو آسان و محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔