سما جی ذرائع ابلاغ 

چنگیز خان اور ہلا کو خان کے دور میں ریڈیو بھی نہیں تھا اخبار بھی نہیں تھا ہٹلر کے دور میں ریڈیو آیا تھا اخبارات چھپتے تھے اس لئے اس کا دور کا فی مشکل ثا بت ہوا، اس پر لا کھو ں یہودیوں کے قتل عام (ہو لو کاسٹ) کا الزام لگا یا گیا جو اب تک مو ضوع بحث ہے آج کا دور چنگیز خان اور ہٹلر کے ادوار سے لا کھ گنا مختلف ہے ریڈیو، اخبارات اور ٹیلی وژن کے بعد ٹویٹر، انسٹا گرام، فیس بک، واٹس ایپ اور دیگر ذرائع ابلا غ نے دنیا کی سات ارب آبادی کو ایک گاوں یا محلے میں محصور کر دیا ہے، ڈو نلڈ ٹرمپ اس دور کی گرفت سے نہ بچ سکا نریندر مودی بھی اس کی گرفت میں آگیا ہے‘ جہاں کہیں بھی کوئی حکمران اُٹھ کر چنگیز خان، ہلا کو خان یا ہٹلر کی نقل اتار نا شروع کرتا ہے پوری دنیا اس کی مذمت میں یک زباں ہو جا تی ہے اور اُس کا بچنا مشکل ہو جا تا ہے اکیسوی صدی میں ذرائع ابلا غ کو تین حصوں میں تقسیم کر کے دیکھا جا تا ہے ریڈیو اور ٹیلی وژن کو الیکٹرا نک میڈیا کا نا م دیا گیا ہے، اخبارات کو پرنٹ میڈیا کہا جا تا ہے ٹویٹر، انسٹا گرام، واٹس ایپ اور فیس بک کیلئے سوشل میڈیا یعنی سما جی رابطے کے ذرائع ابلا غ کا نا م استعمال ہو تا ہے۔
 تازہ ترین صورت حا ل یہ ہے کہ سوشل میڈیا ریڈیو اور ٹیلی وژن سے بھی آگے نکل گیا ہے اور کسی بھی برائی کو بے نقاب کرنے میں اس کی طاقت کو تسلیم کیا گیا ہے 2010اور 2011میں افریقہ اور ایشیا کے عرب ملکوں میں سوشل میڈیا کے ذریعے انقلا ب لا نے کی تحریکیں چل پڑیں جنکو ربیع العرب کا نا م دیا گیا اس نا م کا انگریزی تر جمہ عرب سپر نگ (Arab Spring)کے نا م سے مشہور ہوا، جس کو اردو اخبارات نے بہار عرب کا نا م دیا اس تحریک میں تیو نس، مصر، یمن اور شام انقلا بات کی لپیٹ میں آگئے چند سالوں تک افرا تفری، خانہ جنگی، اور طوائف الملو کی کے بادل چھا گئے پھر یہ بادل چھٹ گئے، 2010میں یہ گما ن کیا جاتا تھا کہ عرب سپرنگ دیگر مما لک کو بھی متا ثر کرے گی، لیکن یہ گما ن غلط ثا بت ہوا عرب سپرنگ مزید پاؤں جما نے میں کامیا ب نہ ہو سکی مصر اور تیو نس میں اس کا برا حشر ہوا شام اور یمن میں بھی اس کا تیا پا نچہ ہوا۔اس کے باوجود ایک موثر اور با اثر طبقے کا خیال ہے کہ سوشل میڈیا بہت بڑی قوت ہے، بہت اہم ہتھیا ر ہے بہت طاقتور دوست ہے جس کو کام میں لا کر بڑے بڑے معرکے سر کئے جا سکتے ہیں تا ہم یہ تجربہ اب تک کامیا بی سے ہم کنار نہیں ہوا اس کی چار موٹی مو ٹی وجو ہات ہیں پہلی وجہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا میدان میں آکر مقابلہ نہیں کر تی۔
 قالین کے نیچے، الما ریوں کی اوٹ میں کا م کر تی ہے، دوسری وجہ یہ ہے کہ دو بدو لڑا ئی اور مقا بلے میں آپ اپنی فو ج کی صف بندی کر تے ہیں سو شل میڈیا میں ایسا نہیں کر سکتے نیز آپ دشمن کی ساخت، سائز اور طاقت اور اپنی کمزوری کا اندازہ نہیں کر سکتے یہ آپ کو غلط فہمی یا خو ش فہمی میں مبتلا کر دیتا ہے تیسری وجہ یہ ہے کہ سو شل میڈیا کے ذریعے اہداف تک رسائی ممکن نہیں یہ ایسی طاقت ہے جو ہوائی گولی چلا تی ہے۔ چوتھی وجہ یہ ہے کہ کسی بھی میدان میں مقا بلے کے لئے آپ کو صف بندی کرنی ہو تی ہے سوشل میڈیا میں صف بندی کا کوئی امکان نہیں آپ کا ایک فرد سنگا پور سے گو لی چلا رہا ہے دوسرا جو ہنسبرگ سے فائر کھو لتا ہے باقی یورپ اور امریکہ میں پھیلے ہوئے ہیں آپ کو یہ بھی معلوم نہیں کہ کس کی عمر کتنی ہے؟ اس کا تجربہ کتنا ہے ضرورت کے وقت وہ آپ کے کا م آبھی سکتا ہے یا نہیں۔یعنی اس وقت اصل جنگ سوشل میڈیا کے ذریعے لڑی جاتی ہے جس کو ایک موثر ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔