فرانس میں پارلیمانی انتخابات کے نتائج و اثرات

فرانس میں صدر میکرون کا اعتدال پسند حکمران سیاسی اتحاد پارلیمانی انتخابات میں مطلق اکثریت سے محروم ہوگیا ہے اور حکومت کے کئی وزرا ء بھی اپنی نشستیں ہار گئے ہیں۔یہ نتائج صدر میکرون کی دوسری مدت کے مجوزہ اصلاحات کے منصوبوں کیلئے بڑا دھچکا ہیں، ان سے ایک معلق پارلیمان اور کمزور اتحادی حکومت کے امکانات بڑھ گئے ہیں اور صدر میکرون نئے اتحادیوں سے رابطوں اور سمجھوتوں پر مسلسل مجبور ہوں گے۔ حکومتی ترجمان کے مطابق یقینا نتائج مایوس کن ہیں ہمیں جو امید تھی اس سے ہمیں کم نشتسیں ملی ہیں۔اکٹھے‘ نامی حکومتی اتحاد کو قومی اسمبلی کی 577 نشستوں میں 245 پر کامیابی ملی ہے جبکہ اسے حکومت سازی کیلئے کم ازکم 289 نشستیں درکار تھیں۔ یاد رہے حکومتی پارٹی کے پاس موجودہ اسمبلی میں تین سو سے زیادہ نشستیں تھیں۔انتہاء بائیں بازو کا نیا اتحاد 131 نشستوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر جبکہ اپریل میں صدارتی انتخابات میں ہارنے والی مارین لے پن, جو خود قومی اسمبلی کی رکن منتخب ہوگئی ہیں، کی انتہائی دائیں بازو کی نیشنل ریلی پارٹی نے 89 نشستوں کے ساتھ زبردست کامیابی حاصل کی اور تیسری بڑی پارلیمانی پارٹی بن گئی ہے۔ 
یاد رہے پچھلے پارلیمان میں اس کی صرف آٹھ نشستیں تھیں۔ قدامت پسند رپبلیکنز پارٹی نے 61 نشستیں جیتیں اور وہ حکومت سازی میں اہم کردار ادا کرے گی۔بائیں بازو کے نئے اتحاد NUPES کے رہنما ژاں میلنخوں نے انتخابی نتائج کو صدر میکروں کی بڑی ناکامی قرار دیا۔ یاد رہے نیوپ نام کے گزشتہ ماہ بننے والے اتحاد میں سوشلسٹ، کٹر بائیں بازو، کمیونسٹ اور گرینز پارٹیاں شامل ہیں۔ اس سے قبل پارلیمنٹ میں اس کی صرف 60 نشستیں تھیں۔ اس اتحاد سے باہر بائیں بازو کی دوسری پارٹیوں نے بھی بائیس نشستیں جیتی ہیں۔فرانس دنیا کی ساتویں بڑی اور یورپی یونین کی دوسری بڑی معیشت، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا مستقل رکن اور جوہری طاقت ہے فرانس میں ان انتخابات کے نتائج پر سب کی نگاہیں مرکوز تھیں۔انتخابات میں ایک معلق پارلیمان وجود میں آیا ہے جس میں کسی پارٹی کو مطلق اکثریت نہیں ملی۔ تو کیا اس سے سیاسی غیر یقینی میں اضافہ ہوگا۔ کیا نئے اتحاد بن سکیں گے یا پھر ملک میں نئے انتخابات کروانے پڑیں گے۔1958 کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ صدر کی پارٹی قومی اسمبلی میں اکثریت کھو چکی ہے۔
 ان کی نامزد وزیراعظم کے مطابق جدید فرانس میں اس طرح کی قومی اسمبلی پہلے نہیں بنی ہے اور ہمارے ملک کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر جو خطرات درپیش ہیں اس صورت حال سے ریاست خطرے میں ہے‘ ہم کل ہی سے اسمبلی میں اکثریت کیلئے کوشش شروع کررہے ہیں۔صدر میکروں نے رائے دہندگان سے مکمل اکثریت دینے کی درخواست کی تھی مگر ان کا اتحاد درجنوں نشستوں سے محروم ہوگیا۔ ان نتائج کی وجہ سے صدر میکرون کو اپنے ایجنڈے کی راہ میں مشکلات کا سامنا ہوگا۔ وہ اقتصادی اصلاحات کرنا چاہتے ہیں اور اس کیلئے انہیں اپنی نامزد وزیراعظم کی حمایت کیلئے درکار ارکان کا بندوبست کرنا ہوگا۔ اس کے لیے انہیں مخالف پارٹیوں سے ارکان توڑنے ہوں گے اور نئے اتحادی بنانے ہوں گے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا وہ ہارنے والے وزرا ء کو تبدیل اور اعتدال پسندوں کو اکٹھا کرسکیں گے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرپاتے تو پھر انہیں ہر قانون سازی پر مفاہمت کرنی ہوگی۔
دوسرے اور تیسرے نمبر پر آنے والی پارٹیوں کے درمیان بھی اتحاد کا امکان نہیں جبکہ انہوں نے کہہ دیا ہے وہ پارلیمان میں سخت حزب اختلاف کا کردار ادا کریں گی۔صدر میکرون کے پاس قدامت پسند پارٹی کے ساتھ اتحادی حکومت بنانے کا اختیار ہے مگر اس اتحاد کی قیمت ہوگی اور صدر میکرون کو اپنی دوستی مدتِ صدارت میں اتحادیوں کے ساتھ مذاکرات اور سمجھوتے کرنے پڑیں گے اور اپنی چند اصلاحات سے دست بردار ہونا پڑے گا۔ اس سے پہلے قومی اسمبلی میں میکرون کی پارٹی کو مطلق اکثریت حاصل تھی مگر اب انہیں ایک تابع اسمبلی کے بجائے کٹر بائیں اور دائیں بازو کے سخت سیاسی مخالفین اور نئے جوان ارکان سے بھری قومی اسمبلی کے ساتھ وقت گزارنا ہوگا۔ اس صورت میں صدر کیلئے اپنی پنشن اور ٹیکس اصلاحات پر عمل کرنا سخت مشکل ہوگا‘واضح رہے حکومتی اتحاد ٹیکس کم کرنا، سماجی بہبود کی مراعات میں اصلاحات لانا اور ریٹائرمنٹ کی حد 62 سے 65سال کرنا چاہتا ہے جبکہ بایاں بازو امیروں پر ٹیکس بڑھانا، کم ازکم اجرت بڑھانا اور ریٹائرمنٹ کی عمر کم کرنا چاہتا ہے۔ انتخابات میں ووٹ ڈالنے کی شرح 46 فیصد رہی، یہ کم شرح، فرانس میں انتہاء دائیں اور بائیں بازو کی جماعتوں اور اتحادوں کی بڑھتی ہوئی عوامی حمایت اور معلق پارلیمان کا مطلب یہ ہے کہ عوام منقسم اور روایتی سیاستدانوں سے مایوس ہیں۔ یاد رہے فرانس کی قومی اسمبلی کے ارکان پانچ سال کیلئے منتخب کیے جاتے ہیں۔ فرانس کے وزیراعظم، جو سربراہ حکومت ہوتے ہیں، آئینی نظام میں اہم کردار ادا کرتے ہیں مگر صدر، جو ان کی تقرری کرتے ہیں، ہی زیادہ تر پالیسی خدوخال طے کرتے ہیں اور انہیں وسیع اختیارات حاصل ہوتے ہیں۔