وہ ہنس رہا تھا۔اس کی اس ہنسی پر میرا دل چاہتا کہ میں رو دوں۔اس نے بائیں ہاتھ سے موبائل تھام رکھا تھا۔ اس کا ایک کان تو ارد گرد سے بے نیاز ہو کر اپنے پیارے کی آواز سن رہا تھا۔ جب ایک ہاتھ مصروف ہو تو ظاہر ہے کہ وہ پورے رکشہ کو دائیں ہاتھ سے چلا رہا تھا۔اس کی آنکھیں تو دیکھ سکتی تھیں اور کانوں میں سماعت تو ظاہر ہے کہ موجودتھی۔ مگر وہ نہ تو دیکھنے کی صلاحیت رکھتا تھا اور نہ ہی سن سکنے کی قوت رکھتا تھا۔ کیونکہ جب بندہ موبائل پر مصروف ہو جائے تو عین سڑک کے بیچوں بیچ ٹریفک کے ہنگاموں کے درمیان میں بھی ا س کا ذہن ودل اس کی ڈرائیونگ کا ساتھ دینے سے قاصر تھے۔ اسی وقت سامنے ایک موٹر سائیکل سوار پتا نہیں کہاں سے اچانک نکل آیا۔ وہ دائیں طرف دیوار اور رکشہ کے بیچ جلدی میں اس ون وے میں سے ہو کر اپنا راستہ نکالنا چاہتا تھا۔اس کانتیجہ یہ ہوا کہ دونوں آپس میں ٹکرائے۔ رکشہ تو خیر اس ہیبت ناک سین میں اوندھے منہ گر گیا۔پھر موٹر بائیک والا دیوار کی ریگ مال کی سی تہہ کے ساتھ مسل کر چہرہ و جسم پر خراشیں ڈال بیٹھا۔ دونوں کا برابر کاقصور تھا۔ اس دور کے ہمارے ٹریفک کا المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں حادثات میں کسی ایک کا قصور نہیں ہوتا۔ہر چند وہ کہے گا میرا نہیں تمھارا قصور ہے۔مگر جو غیر جانبدار ہو کر کھڑے یہ تماشا دیکھتا ہوگا ضرور کہے گا کہ نہیں یہ دونوں کا دوش ہے۔اس لئے کہ ہمارے اس سڑکوں کے ٹریفک نظام میں نا اتنی سمجھی اور جلدی در آئی ہے کہ ہر آدمی کو خدا جانے کس بات کی جلدی ہوتی ہے۔
ایک دوسرے کو پیچھے چھوڑ کر آگے نکل جانے کی تمنا میں وہ ایک دوسرے کو ٹھوکر مار دیتے ہیں۔پھر وہیں کھڑے ہو کر ایک دوسرے سے تو تکار اور پھر مشت وگریباں ہو جاتے ہیں۔ بیچ بچاؤ کرنے والے بھی کونوں کھدروں سے نکل آتے ہیں۔مگر اپنی غلطی کوئی نہیں مانتا۔اس قسم کے دسیوں اور بیسیوں حادثات ا س شہر میں آئے روز رونما ہوتے ہیں۔ حادثے کے شکار ہسپتال تک پہنچ جاتے ہیں۔ہسپتال سے یا دآیا۔میں شہر کے اس نامی گرامی مگر چھوٹے سے ہشت نگری کے سرکاری ہسپتال کے مین گیٹ سے داخل ہوا۔ ایمرجنسی کے پاس برآمدے میں جا رہاتھا۔اوپر کہیں کسی مریض کی عیادت کرناتھی۔ مجھ سے پہلے ایک شخص نے کیلا کھا کر اس کا چھلکاوہیں زمین پرگرایا اور فوراًدائیں طرف موڑ کاٹ کر برآمدے میں غائب ہو گیا۔میں نے بجائے اس کے کہ اس کا پیچھا کر کے اس کو بلوا کرچھلکا اٹھواتا۔یہ ضروری سمجھا کہ میں اگر اس کے تعاقب میں گیا کہ اس کو نصیحت کروں۔
اسی وقت یہاں کوئی معذور انسان اگر لاٹھی ٹیکتا ہوا بھی اس چھلکے پر پھسل گیا توبرا ہوگا۔ میں نے پاؤں سے چھلکا ایک طرف کرنا چاہا۔ مگر جوں دیکھا کہ پاس ہی بڑی بالٹی پر نیلے رنگ کا شاپر چڑھا ہوا ہے اور گند اس میں پھینکا جاتا ہے۔ اس لئے پاؤں سے چھلکا اٹھاکر اس اونچی بالٹی میں گرانا مشکل نظر آیا۔سو ہاتھ سے اٹھا کر اس بڑے سائز کی ٹوکری میں پھینک دیا۔ یہ تو بالکل بچوں جیسی حرکتیں ہیں۔بلکہ ہمارے ہاں تو بچے ایسی حرکتیں کرتے ہوں گے۔ لیکن باہر کے ترقی یافتہ معاشروں میں بچے بھی ایسا نہیں کرتے جو ہمارے ہاں بڑی عمر کے لوگ الٹے سیدھے کام کرتے ہیں۔میں چاہتا تھا کہ کاش وہ کیلے کا چھلکا پھینکنے والا مجھے اس کے خود کا گرایا ہوا گند ہاتھ سے اٹھا تا ہوا دیکھ لیتا تو پھر اس کو منہ سے نصیحت کرنے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔اس کو خود بخودسبق حاصل ہو جاتا‘سب سے اچھی تربیت اور نصیحت یہی ہے کہ دوسرے کو کسی کام سے منع کرنے کے بجائے خود اس کے سامنے اس برے کام سے منع ہو کر بتلایا جائے۔ ہمارے ہاں کاایک بندہ جرمنی گیا۔ بازار میں اس نے کیلا کھا کر چھلکا سڑک پر وہیں پھینک دیا‘ ایسے میں وہاں ایک بچہ نمودار ہوا جوکہیں کھڑے یہ سین تماشا دیکھ رہا تھا۔ اس نے منہ سے کچھ نہ کہا۔
صرف اس کی طرف مسکرا کر دیکھا اور وہی چھلکا اٹھا کر پاس رکھی ہوئی کوڑے کی باسکٹ میں پھینک دیا۔ یہ منظر دیکھ کرچھلکا پھینکنے والا شرمندہ ہوا اورکسی کے سمجھائے بغیر آئندہ کے لئے اس قسم کے غیر ذمہ دارانہ عمل سے دل ہی دل میں توبہ کی۔ اس نے پشاور واپس آکر دوستوں کی محفل میں یہ قصہ سنایا۔بچے سے یاد آیا کہ ہم بچوں کو بھی ا س قسم کی تربیت گھروں میں دیں۔ جب گھر میں بچہ ٹافی کھول کر اس کا رنگین کاغذ وہیں دری پر پھینک دے تو ہم ٹافی کا کاغذ خود اٹھا کر باسکٹ میں پھینکیں اور ساتھ بچوں کو دکھائیں کہ بیٹا ایسا نہیں کرتے۔ اس سے گند پھیلتا ہے۔ہماری خود کی بیٹھنے کی جگہ گندی ہو جاتی ہے۔بلکہ اس سے ہٹ کر بعض گھروں میں توہم خوش ہوتے ہیں کہ ہمارے گھروں کے لاڈلے بچے اگر کوئی گالی دیں تو ہم ہنستے ہیں کہ واہ یار یہ تو گالی بھی دیتا ہے۔اس پر ہمیں خوش ہونے کی کیا ضرورت ہے۔ہمیں ملائم انداز میں بچے کو منع کرنا چاہئے۔اس قسم کے واقعات ہمارے ہاں زور پکڑ رہے ہیں۔بہت کم لوگ ہیں جو بچوں کی تربیت پر توجہ کرتے ہیں۔جو ہم بوئیں گے کل کو وہی کاٹیں گے۔