میانہ روی کے فوائد

پاکستان میں اس وقت روزانہ سو کے قریب اوپن ہارٹ سرجری کے آپریشن ہو رہے ہیں سٹنٹ اور دوسرے ذرائع سے امراض قلب کا علاج اس کے علاوہ ہے۔ جنک فوڈ junk food نے ہماری جواں سال نسل کی صحت کا بیڑہ غرق کر کے رکھ دیا اوپر سے موبائل ٹیلیفون کے سیٹوں نے بچوں کی آنکھوں کا  بھی ستیاناس کر دیا ہے پہلے کہیں 40 برس کی عمر کے بعد جا کر انسان کو نظر کے چشموں کی ضرورت پڑا کرتی تھی آج چھوٹے چھوٹے بچوں نے نظر کے چشمے لگا رکھے ہیں۔ جسمانی ورزش کی طرف کسی کا دھیان نہیں چین کے دارالحکومت بیجنگ میں کروڑوں لوگ صبح سویرے اپنے دفاتر یا تجارتی مراکز میں جب کام کرنے نکلتے ہیں تو  سائیکلنگ کر کے اپنی جائے مقصود کی طرف جاتے ہیں اور پھر ان کا  واپسی کا سفر بھی سائیکل پرہوتا ہے۔ حکومت جو سڑک بھی وہاں تعمیر کرتی ہے اس میں سائیکل سواروں کیلئے  علیحدہ لین ہوتی ہے تاکہ کوئی ٹرک یا دیگر گاڑی سے سائیکل سوار کی ٹکر نہ ہو۔ہمارے ہاں لوگ سائیکل اس وقت چلاتے ہیں جب کوئی امراض قلب کا ڈاکٹر انہیں کہے کہ اگر سائیکل چلا کر اپنا وزن نہ گھٹایا تو جان کوخطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ہم من حیث القوم مرغن کھانوں کے شوقین ہیں اور گوشت کے بغیر ہماری کوئی ہانڈی نہیں پکتی۔ جاپان اور چین میں اپ کو زیادہ فربہ لوگ اس لئے نظر نہیں آ ئیں گے کہ وہ اُبلے ہوئے کھانے کھاتے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے سروے کے مطابق پاکستان میں شوگر اور دل کے امراض میں لوگ اس لئے بھی مبتلا ہو رہے ہیں کہ  یہاں لوگ چینی اور نمک کا کثرت سے استعمال کرتے ہیں۔ہم نے من حیث القوم چلنا پھرنا یا بالفاظ دیگر واک کرنا چھوڑ دیا ہے اور اس عادت نے ان کی صحت کا ستیا ناس کر دیا ہے۔ ایک سیانے سے کسی نے اچھی صحت کا راز پوچھا تو اس نے جواب دیا کہ جتنا کھاتے ہو اسکا آ دھا کھایا کرو، جتنا پانی پیتے ہو اس کا ڈبل پیا کرو اور جتنا چلتے ہو اس کا دو گنا زیادہ چلا کرو ان تین چیزوں میں اس سیانے شخص نے  اچھی صحت کا راز بتا دیا۔ آج کے ڈاکٹر بھی تو اپنے مریضوں کو بسیار خوری سے منع کرتے ہیں کہنے کا مطلب یہ کہ ہر شئے میں میانہ روی برتنا چاہئے۔ان چند معروضات کے بعد ذرا ذکر ہو جائے وطن عزیز اور عالمی سطح پرہونے والے چند اہم واقعات کا۔اس وقت ہم معاشی طور پر مشکل میں ہیں  اور زر مبادلہ کی پائی پائی بچانا  ضروری ہے۔خدا لگتی یہ ہے کہ ہمیں فارن ایکسچینج کو بچانا ہے اور یہ تب ہی ممکن ہے کہ ہم ہر اس چیز کے استعمال میں کمی لائیں کہ جو ہمیں دوسرے ممالک سے منگانی پڑتی ہے‘ہمیں پر تعیش کاروں کی بجائے شہروں کے درمیان اور شہروں کے اندر آرام دہ پبلک ٹرانسپورٹ پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے جس طرح کی بہت سے ترقی یافتہ ممالک میں ہے۔