ہم صبح بیدار ہوئے تو شینک پر لگے نلکے میں اتنا ٹھنڈا پانی تھا کہ لگتا بند پنکھوں کے درمیان میں ہم کاغان ناران آئے ہیں۔ لگتا کسی نے ٹینکی میں برف کے ڈلے ڈال دیئے ہیں۔بیس دنوں قبل اسی ٹینکی میں سے آنے والے پانی کو چھوکر لگتا کہ پانی کی گرم سماوار قہوہ خانے میں چائے پکانے کو اوپررکھ دی ہے۔اب تو ہم نے دو ایک دن پہلے خشکی دور کرنے کی کریم بھی چہرہ پر لگانا شروع کردی ہے۔ کریم ملنا چھوڑ دیا تھاکہ اب پسینوں میں منہ پر کریم لگانے کے دن گئے۔ملک بھر میں بارشوں کی بھرمار نے چولستان کے صحرا پر بھی مہربانی کر دی ہے۔وہاں کے خشک تالاب پانی سے بھر گئے ہیں۔پانی کی بوند بوند کو ترس کرکتنے ہی جانور یہاں موت کے منہ میں چلے گئے۔پشاو رمیں تو مہینہ بھر ہوگیا روز جھکڑ چلتے اور ٹھنڈی ہوائیں شام کے وقت اپنا روپ سروپ دکھلانے لگتی تھیں۔ایسا پری مون سون تو دیکھا نہ سنا واہ قدرت کے حسین نظارے او رہم ہیں۔حالانکہ مون سون کی پٹی میں پشاور شامل نہیں ۔مگر قدرت کا کمال ہے پشاور کو ان مون سون کی بارشوں کا حصہ بنا دیا۔ہمارے رشتہ کے چچا ظہور الٰہی قمر کیا بیبا آدمی تھے۔افسر نہ تھے مگر افسرانہ شان تھی۔ہمہ وقت پتلون او رشرٹ میں گھومتے۔سرکاری محکمے میں سپرنٹنڈنٹ تھے۔ صحیح معنوں میں پڑھے لکھے پرانے زمانے کے بی اے او رانگلش لکھنے میں او رہینڈ رائیٹنگ میں ماسٹر تھے۔۔خدا جانے کیا کہتے مگر عجب کہتے تھے۔ ہمارے لڑکپن کا زمانہ تھا۔وہ انگریزی رسالے پڑھتے تھے۔نئی نئی معلوماتی باتیں کرتے تھے۔ ان کی بہت سی پیش گوئیاں مجھے اب تک یاد ہیں۔ یہ بھی کہ پشاور میں گرمی کے مہینوں میں سردی ہوگی۔یہ چالیس برس پہلے کی باتیں ہیں۔فی الحال تو ہم نے پنکھے بند کر دیئے ہیں۔ تین دن کی مسلسل بارشوں نے تو سردی کا ایک نیا سا ماحول بنا دیا۔ صبح دم ٹھنڈی دھوپ ہے مگردوبارہ پیش گوئی ہے کہ بارش نے اورجل تھل مچانا ہے۔جون کی گرمی کا مہینہ ہے مگر لگتا ہے جنوری اپنے عروج پر ہے۔ساری رات ہلکی ہلکی بارش تھی جو تین روز سے اس شہرِ سبزہ وگل پر مہربان ہے۔مگر اب تو بجلی کا شارٹ فال نہیں ہونا چاہئے۔اس لئے کہ پورے ملک میں ان دنوں بجلی کی ضرورت نصف سے بھی آدھی رہ گئی ہے۔تو پھر بجلی غائب کرنے کی بھلا کیا بات ہے۔شکر ہے موسم مہربان تھا رات کو جو بجلی کے بغیر آنکھ لگی تو پنکھوں کی گڑگڑا کے بعد بند ہونے کے باوجود بھی تادیر کھل پائی۔یہ تو تحفہ خداوندی ہے کہ جون کے اس تپتے جھلسا دینے والے ماہ میں جنوری کی سردی کے مزے ہیں۔میں کہتا ہوں کہیں آنے والے دسمبر میں گرمی نہ ہو۔ جیسا نیوزی لینڈ میں دسمبر سے مارچ تک چارماہ موسمِ گرما ہواکرتا ہے۔کیونکہ موسم کی خرابی کہیں تو خوبی بن گئی ہے اور کہیں تباہی اور واہی تباہی کا روپ دھا رچکی ہے۔ موسم آپس میں تاش کے پتوں کی طرح گڈ مڈ ہو گئے ہیں۔دھوپ چھاؤں کا راج ہے۔اندھیرے اُجالے کی کیفیت ہے۔ہوائی ریاست امریکہ میں سال کے بارہ مہینے گرمی رہتی ہے او رٹھیک ٹھاک تپش ہوتی ہے۔مگر اب جہاں گرمی ہو وہاں سردی ہو سکتی ہے او رجن مہینوں میں سردی کی یخ ہوائیں ہوں وہا ں گرمی کی لُو چل سکتی ہے۔یہاں پشاو رمیں ایسا ہی ہے۔نصف صدی ہوئی کہ میں جون کے ماہ میں آسمان سے آگ برستی ہوئی دیکھ رہا تھا۔مگر اس بار تو جون میں ٹھنڈی ہوائیں غول در غول غلبہ کر کے آرہی ہیں۔ہمارے باپ دادا جو ہم میں نہیں رہے وہ ہوتے تو ہماری طرح حیران ہی ہوتے کہ جون میں یوں سردی کہ رات سوئے تو بند پنکھوں میں بھی کمرے کے دروازے کھڑکیاں بند کرنا پڑیں تاکہ ٹھنڈی ہوا سے بچ سکیں۔کیونکہ یہ نہ ہو تپ چڑھ جائے۔ اس موسم کی دھوکہ بازیوں میں شہریوں کو بخارنے آن گھیرا ہے۔گرم سرد ہو جانے کی کیفیت ہے۔مجھے یاد ہے وہ دن جب ہماری گلی میں فوتگی ہوئی تھی تو ہم بہت مصروف تھے رمضان تھا جون 1985ء تھا۔ اتنی غضب ناک گرمی کہ شدتِ پیاس سے لوگ پریشان ہوگئے۔ دوسال پہلے جون کی بیس تاریخ کو میں رات دس بجے گھر سے نکلا۔لاہوری دروازے کے پاس کام تھا۔مگر جوں گھر سے نکلا اتنی گرم ہوا اور تپش کی فضا تھی کہ مجبوری نہ ہوتی تو میں گھر واپس لوٹ آتا۔ مگر اس سال تو اور ہی معاملہ ہے۔واقعی وہ ذات قادر و قدیر ہے جوہنگامی طور پر کسی سختی کو جو کسی طور جاتی نہ ہو آسانی میں بدل دیتا ہے۔تین سال پہلے اپریل کے مہینے میں مری میں برف باری ہوئی تھی۔تین ہی سال پہلے سردی کے مہینوں میں ہر دوسرے دن بارش ہوتی تھی۔ صبح اٹھو تو صحن میں پانی جمع ہوتا تھا۔ اتنا کہ شہری بارش سے تنگ آ گئے تھے۔موسم کے یہ کرشمے ہیں یا گلوبل وارمنگ کی ناہمواری ہے۔مگر موسم کی ابتری پشاور کے رہنے والوں کو جون کے مہینے میں سردی مہیا کرنے لگی ہے۔پانچ سالوں سے یہا ں ایسا ہی ہو رہا ہے۔ کبھی گرمی میں سردی اور سردی میں گرمی۔