مون سون

پاکستان میں اِس سال مون سون سیزن میں بارشیں سالانہ تناسب سے زیادہ ہوں گی جس سے سیلاب‘ زمینی تودے گرنے (لینڈ سلائیڈنگ) اور شہری مراکز سے نکاسی آب نہ ہونے کی وجہ سے سیلاب کی صورتحال پیدا ہوگی۔ اِس خراب موسم سے انسانی جانوں‘ املاک اور مال مویشیوں کا نقصان ہوگا۔ محکمہ موسمیات کی جانب سے طوفانی بارشوں سے متعلق ”موسمی الرٹ“ جاری کر دیا گیا جس کے بعد قومی اور صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹیز (این ڈی ایم اے اور پی ڈی ایم اے) نے متعلقہ محکموں کو سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ کے ممکنہ خطرات سے نمٹنے کی ہدایات جاری کی ہیں۔ نیشنل ایگرومیٹ سینٹر (پی ایم ڈی) کے ڈائریکٹر ڈاکٹر خالد محمود ملک کے مطابق ”مون سون کے موسم میں ملک میں اوسطا تقریبا 140سے 145ملی میٹر بارش ہوتی ہے لیکن 20 مئی سے مون سون بارشیں شروع ہوتے ہی 57فیصد زیادہ بارش ہو چکی ہے۔ معمول سے زیادہ بارش خطرناک اِس لئے خطرناک ہوتی ہیں کیونکہ اِن کی وجہ سے نکاسیئ آب اور برساتی نالوں کی گنجائش کم ہوتی ہے جو سیلاب کی بنیادی وجہ ہے۔ فیصلہ سازی کے موقع پر اکثر بارش کو ”قدرتی آفت“ سے تشبیہ دی جاتی ہے جو دانستہ غلطی ہے۔ سچ یہ ہے کہ مون سون کی
 سالانہ بارشیں قدرتی مظہر ہیں لیکن اس سے پیدا ہونے والا سیلاب مکمل طور پر قابل روک تھام ہے۔ بارش کا پانی نعمت ہے جسے ذخیرہ کر کے استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔ کیا ہم نہیں جانتے کہ پاکستان کی زرخیز زرعی زمین پانی کی کمی کی وجہ سے صحرا میں تبدیل ہو رہی ہے اور ڈیزرٹفیکیشن کا جاری عمل پانی کے غلط استعمال‘ جنگلات کی کٹائی‘ نامناسب زرعی طریقوں‘ موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات یا ان سب کے امتزاج کی وجہ سے ہیں جن کے باعث قابل کاشت زمین صحرا بن رہی ہے!
روایت ہے کہ ہر سال مون سون سیزن سے پہلے وفاقی اور صوبائی سطحوں پر ہنگامی حالات کا اعلان کر دیا جاتا ہے اور اِس سے زیادہ کچھ نہیں کیا جاتا۔ ماضی کی طرح اِس مرتبہ بھی مون سون بارشوں کے آغاز پر بلوچستان کے متعدد اضلاع میں سیلاب آیا ہے جبکہ گلگت بلتستان میں لینڈ سلائیڈنگ ہوئی ہے۔ بلوچستان میں جعفر آباد‘ جھل مگسی‘ کوہلو‘ نصیر آباد‘ سبی و دیگر علاقے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں جہاں بجلی کا ترسیلی نظام متاثر ہوا ہے۔ سیلاب کا پانی اپنے راستے میں آنے والی ہر تعمیر اور ترقی کو بہا لے گیا ہے اور ایسے سیلاب ہر سال تباہی کا سبب بنتے ہیں جبکہ ہر سال ہی یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ سیلاب کا باعث بننے والے پانی کو ذخیرہ کیوں نہیں کیا جاتا؟ ہر سال جولائی سے ستمبر تک مون سون بارشیں اپنے ساتھ سیلاب لاتی ہے لیکن حالیہ برسوں میں موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے موسم کی غیر معمولی صورتحال دیکھنے میں آ رہی ہے اور جولائی کی بجائے ’مون سون سیزن‘ جون ہی میں شروع ہو چکا ہے اور ہر سال کی طرح اِس مرتبہ بھی نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے متوقع شدید بارش سے متعلق ایڈوائزری جاری کر دی ہے لیکن گزشتہ سال کے سیلاب کو مدنظر رکھتے ہوئے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کئے گئے۔ بلوچستان کے علاوہ گلگت بلتستان‘ کشمیر اور خیبر پختونخوا کے علاقوں جیسا کہ گلیات اور آس پاس کے علاقوں میں موسلا دھار بارشیں ہو رہی ہیں۔ لینڈ سلائیڈنگ 
کی اطلاعات بھی ہیں اور نشیبی علاقوں اور دریاؤں میں سیلاب کا خطرہ بھی ہے۔ ایک ایسی صورتحال میں جب کرہئ ارض کے موسم بدل رہے ہوں‘ گرمی و بارش کی شدت سے متعلق آگاہی بھی موجود ہو تو سیلابی ریلے کی زد میں آنے والے علاقوں بالخصوص پہاڑی علاقوں میں پہلے ہی سے انتظامات کر لینے چاہئیں۔ مٹی اور برفانی تودے گرنے سے بالائی علاقوں کا مواصلاتی رابطہ منقطع ہو جاتا ہے۔ ایسی صورت میں سڑکیں فوری طور پر کھولنے کیلئے بھاری مشینری بالائی اضلاع پہنچا دینی چاہئے کیونکہ لینڈ سلائیڈنگ سے نقل و حرکت مفلوج ہو جاتی ہے اور سیاح و مقامی لوگ پھنس جاتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل شدید برفباری کی وجہ سے مری میں سانحے پیش آیا تھا جس سے پورا ملک لرز اٹھا تھا۔ سانحہئ مری (7 جنوری 2022ء) میں 23 افراد ہلاک ہوئے تھے جس کے بعد اُمید تھی کہ ہنگامی حالات میں کام کرنے والے ادارے بیدار (فعال) ہوں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ یوں لگتا ہے کہ بار بار کی غلطیوں سے بھی کوئی سبق نہیں سیکھا جا رہا ہے۔ طوفانی بارشوں کو کوئی نہیں روک سکتا لیکن کم از کم بہتر تیاریاں ہونی چاہئیں تاکہ انسانی جانوں اور املاک پر اِن کے تباہ کن اثرات کو کم سے کم کیا جاسکے۔