قومی فیصلہ سازوں کی جانب سے مزید ’مشکل فیصلے‘ کی خبر درحقیقت مہنگائی کی شرح میں اضافے کی جانب اشارہ ہے اور عام آدمی (ہم عوام) کے لئے سب سے زیادہ الجھن (پریشانی) یہی بنی ہوئی ہے کہ اگر مشکل فیصلے کرنے ہی ہیں تو پھر مسلط مہنگائی اور عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی سخت شرائط پر قرض نہ لینے جیسا مشکل فیصلہ کیوں نہیں کیا جاتا؟ یہ بات بھی سمجھنا ہوگی کہ ”مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں“ کا تصور صرف شاعرانہ نہیں بلکہ عملی زندگی میں بھی اگر مشکلیں آسان بنانے کیلئے مشکلات کا سامنا کیا جائے تو آسان حل تلاش کئے جا سکتے ہیں اور آسان حل بہرحال موجود ہیں! عوام تو بہرصورت قربانی دے رہی ہے اگر قومی فیصلہ ساز بھی اپنی مراعات اور آسائشوں کی قربانی دیں تو پاکستان کی اقتصادی مالیاتی عمارت کو اِس کی اصل بنیاد پر مضبوطی سے کھڑا کیا جاسکتا ہے۔ ہر حکومت پٹرولیم مصنوعات‘ بجلی‘ گیس اور دیگر اشیائے ضروریہ کے نرخ بے مہابہ انداز میں بڑھاتے ہوئے اس کا ملبہ ماضی کے حکمرانوں پر ڈالنے کی پالیسی پر گامزن ہے اور اِس میں عوام کا عملاً کچومر نکل رہا ہے۔ عام آدمی کو اشیائے ضروریہ کے نرخ (دام) بڑھانے کے پس منظر سے سروکار نہیں بلکہ وہ اپنے اقتصادی مسائل میں ہر صورت ریلیف چاہتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ عام انتخابات میں ایک سے زیادہ مرتبہ اقتصادی مسائل کے حل اور قرضوں سے نجات کا وعدہ کرنے والوں کو ’اقتدار کا مینڈیٹ‘ دیا گیا لیکن ہر حکومت اقتصادی مسائل حل کرنے کی بجائے اِس میں اضافے کا باعث بننے والے ’آئی ایم ایف‘ رجوع کرتی رہی ہے نتیجتاً ملک میں مہنگائی کے سونامی اٹھتے رہے‘ عوام مضطرب ہوں تو حکومتیں تبدیل ہو جاتی ہیں لیکن یہ بھی مسئلے کا پائیدار حل ثابت نہیں ہو رہا یقینا موجودہ جماعتوں کے قائدین کو مکمل ادراک تھا کہ آئی ایم ایف‘ کے ساتھ طے شدہ معاہدے پر مکمل عمل اور اس کی ہر شرط قبول کرنا پڑے گی جس سے ملک میں مہنگائی کم ہونے کے بجائے مزید بڑھے گی۔حکومت کو عوام کو حقیقی ریلیف کے ذریعے مطمئن کرنے والی عملی پالیسیاں اختیار کرنی چاہئیں مگر فی الوقت حکومت کے لئے اپنے مشکل فیصلوں کے ساتھ عوام کو مہنگائی کے عفریت سے نکالنا مشکل نظر آرہا ہے۔ اس کے برعکس مہنگائی کے نئے سونامی اٹھنے کا امکان ہے‘ جس کا عندیہ اس سے ہی ملتا ہے کہ حکومت آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکیج کی اگلی قسط لینے کی خاطر معاہدے کی ہر شق پر مکمل عملدرآمد کا یقین دلا رہی ہے اور اس کے لئے عملی اقدامات بھی کر رہی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ مشکل فیصلوں کے باوجود ’آئی ایم ایف‘ مطمئن نہیں اور پاکستان کو قرضے کی اگلی قسط جاری کرنے سے مسلسل گریز کیا جارہا ہے۔ اس تناظر میں ضروری ہو گیا ہے کہ قومی آمدنی (ریونیو) بڑھانے کے لئے نئے ٹیکسوں کے معاملہ میں عام آدمی پر توجہ مرکوز کرنے کی بجائے ان طبقات پر نظر کی جائے جو ہر قسم کے وسائل سے مالامال ہیں لیکن حسب آمدنی ٹیکس ادا نہیں کر رہے۔ پاکستان میں ٹیکس چوری کو چوری (بدعنوانی) سمجھا بھی نہیں جاتا۔ ملک کے سرمایہ دار حکومتوں میں اپنا اثرورسوخ ہونے کے باعث خود پر کوئی نیا اور بڑا ٹیکس لگنے بھی نہیں دے رہے اگرچہ وزیراعظم شہبازشریف نے میثاق معیشت کی بنیاد پر کفایت شعاری اختیار کی ہے اور اپنی کابینہ سمیت اعلیٰ مناصب پر فائز شخصیات کی مراعات میں چالیس فیصد تک کمی کی ہے‘ اس کے باوجود مراعات یافتہ طبقات کو سرکاری خزانے سے بے شمار مراعات اور سہولتیں حاصل ہیں جو تعمیر ملک و ملت کے جذبے کے تحت انہیں یا تو رضاکارانہ طور پر خود ہی واپس کر دینی چاہئیں یا اِس حوالے سے حکومت مؤثر قانون سازی کرکے اشرافیہ طبقات کو حاصل غیرضروری سہولتیں واپس لے جس سے سالانہ اربوں روپے کی یقینی بچت ممکن ہے اور پھر آئی ایم ایف کے پروگرام سے ملک کو باہر نکالنے کی راہ بھی اِسی صورت ہموار ہو پائے گی‘ جبکہ غیرترقیاتی اخراجات میں خاطرخواہ (حسب حال) کمی لائی جائے۔ اسی طرح ہم پاکستان کی معیشت کو ایم ایف کی شرائط کے تحت لانے سے خود کو بچایا جا سکتا ہے۔ اِس سلسلے میں اُن ممالک کی مثالیں اور تجربات موجود ہیں‘ جنہوں نے ’آئی ایم ایف‘ کے شکنجے سے چھٹکارا حاصل کیا اور کامیابی و سرخروئی حاصل کی۔ قرضوں پر آزادی اور غذائی خودکفالت (زرعی شعبے کو ترجیح دیئے) بغیر معاشی و اقتصادی اصلاحات اور مہنگائی میں کمی ممکن نہیں ہے۔