پولیس گاڑیوں کا پٹرول 

 جب آپ مثالی اور ماڈل پولیس کی بات کرتے ہیں تو پولیس کو اچھی مثال بنا نے کیلئے ان پر اٹھنے والا سرکاری خرچہ بھی زیادہ کرنا پڑتا ہے۔ ہر محکمہ پر سرکاری پٹرول کا کٹ لگے تو یہ درست ہوگا۔مگر پولیس گاڑیوں کا پٹرول فرواں ہونا چاہئے تاکہ ان کو قانون کے نفاذاور اس کی عمل داری میں آسانی ہو۔ان کی گاڑی کے پہیے کو گھومنے کیلئے فراواں پٹرول درکار ہے۔ تاکہ معاشرے میں جو شہری رات کو سکھ کی نیند سوتے ہیں ان کی نیندیں برباد نہ ہوں۔بھلے آپ پولیس کے پٹرول پرکٹ لگائیں مگر  پھران سے امید نہ رکھیں کہ وہ جرائم کی بیخ کنی میں آپ کے احکام کی بجا آوری کر سکیں گے۔ سنا ہے کہ پٹرول مہنگا ہونے کے بعد سرکارنے ان کے پٹرول خرچے کو بھی کنٹرول کیا ہے۔ہر چند ملک میں ایمرجنسی کی حالت ہے۔مگر پٹرول کے گراں ہونے کے بعد اگر کٹ ہی لگانا تھا تو پولیس کے پٹرول کو تو نہ چھیڑتے۔پھر کہتے ہیں پولیس سستی کا مظاہرہ کرتی ہے۔گاڑی میں پٹرول نہ ہو تو یہ بیچارے چستی کا مظاہرہ کیسے کریں گے۔بھلا پولیس کی کارکردگی گاڑیوں کے بغیر کہاں ممکن ہے۔کیا یہ لوگ پیدل گھومیں گے۔وہ علاقے جو پیدل مارچ کرنے کے نہیں وہاں تو یہ سیکورٹی والے گاڑیوں ہی میں پہنچ پائیں گے۔ اچانک کہیں سے کسی واردات کی اطلاع آئے تو یہ لوگ کیسے چابکدستی دکھلائیں۔ظاہر ہے کہ فوراً سے پہلے گاڑی نکلے پھر وہاں آن کے آن میں پہنچ پائیں۔وہاں سے مجرموں کو گرفتار کرنا ہو تو کیا ان کو ہتھ کڑیاں پہنا کر پیدل ہی راستوں اور بازاروں میں سیرو سیاحت کرواکرلائیں گے۔جب سے پٹرول مہنگا ہوا ایک تو لوگ کمانے جوگے نہیں رہے۔ان دنوں اسی لئے وارداتیں بڑھ گئی ہیں۔پولیس کو دو سو لیٹر پٹرول ڈالنے کی اجازت ہے جو ایک مہینے کے لئے ہے اور پھر چوبیس گھنٹے استعمال کرنا ہے۔یہ محدود مقدار تیس دنوں کے لئے تو کیا ہفتہ بھر کے لئے بھی ناکافی ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر پولیس کو فراہم کردہ پٹرول کو محدود کیا جائے تو پھر جرائم کو ایک حد میں رکھنا یا اس کا خاتمہ کرنا یقینا مشکل ہو جائے گا پولیس نے تو ڈیوٹی دینی ہے اور ان کو جو وسائل دستیاب ہونگے ان سے استفادہ کرنا ہے۔یہ اپنی ڈیوٹی نبھانے کے لئے جیب سے بھی ہزار کا پٹرول ڈال لیتے تھے۔ جو کبھی تو آٹھ لیٹر ہوتا تھا اورپھر چھ اور اب چار سے کم لیٹر کا ہے۔ ایسے میں پولیس کا بائیک رائڈر سکواڈ ہو یا پولیس وین سڑک پر کیسے دوڑے گی۔ بیوروکریسی قانون کی عمل داری کوپولیس کی مدد سے یقینی بناتی ہے۔ہرگاہ کہ سرکار نے افسران کی گاڑیوں کو پٹرول کی ترسیل کم کردی ہے مگر ملک چلانا پولیس کے محکمہ کو اپ ٹو ڈیٹ رکھنے سے بھی توہے۔اگر پولیس کے ہاتھ باندھ دیئے گئے تو جرم کی عمل داری زیادہ ہو جائے گی۔ پہلے تو کسی علاقے میں مجرموں کاایک گروپ ہوتا تھا۔ جب اس علاقے میں جرم ہوتا تو پولیس اس گروپ میں سے کسی ایک کو دھر لیتی۔جس کی وجہ سے باقیوں کا نام پتا مل جاتا۔اب تو حال یہ ہے کہ ہر محلے میں دو ایک چور موجودہوتے ہیں۔ایسے میں ان کو دبوچ لینا انھیں گاڑیوں کے ذریعے ریڈ کر کے ممکن ہے۔پھر جو گرفتار ہوں کیا ان کو رکشے میں بٹھا کر لایا جائے گا۔ پولیس کے پاس پہلے بھی وسائل نہیں تھے۔مگر پٹرول کے مہنگاہونے کے بعد ان پر کٹ لگانے سے ان کے وسائل مزید کم ہوں گے۔ویسے بھی پولیس اہلکار باوردی ہوں تو ہر طرح سے خطرے کی حالت میں ہوتے ہیں۔جب ان کو آپ نے اپنا محافظ بنایا ہے توان کو سہولیات بھی زیادہ سے زیادہ دینی چاہئیں۔تاکہ آپ کو ان سے شکایت بھی نہ ہو۔کیونکہ دنیا تو عالم اسباب ہے یہاں پر اگر ترقی ہو گی تو اس کے بھی اسباب ہوں گے اور تنزلی ہو گی تو اس کا بھی کوئی سبب ہوگا اس لئے پولیس کو وسائل فراہم کر کے ہم معاشرے میں امن وخوشحالی کے سامان کرتے ہیں۔پولیس کارندے ہیروئن کے عادی افراد کو نہر کے پلوں کے نیچے سے کھینچ تان کر نکالیں گے اور ان کو رہیب سنٹر میں پہنچائیں گے۔ظاہر ہے کہ ان کو کاندھوں پر تو اٹھا کر نہیں لے جایا جا سکتا۔کیونکہ یہ تو جسمانی کمزور ی کا شکار ہوتے ہیں۔ ان کو دور دراز کے فلاحی سنٹر تک کیسے پہنچایا جائے گا۔اگر آپ معاشرے کی فلاح چاہتے ہیں توپھرپولیس کے پاس گاڑیوں میں وافر پٹرول ہونا بہت ضروری ہے۔