فرنگیوں کے زمانے میں بلکہ قیام پاکستان کے بعد بھی ایک لمبے عرصے تک خیبرپختونخوا میں پانچ ایسے سب ڈویژن تھے جو انتظامی لحاظ سے نہایت ہی اہم سب ڈویژنز شمار ھوتے تھے اور حکومتیں ان کو چلانے کیلئے اپنے بہترین افسر وہاں بطور اسسٹنٹ کمشنر/سب ڈویژنل مجسٹریٹ تعنیات کیا کرتی تھیں ٗان سب ڈویثرنز کے نام یہ ہیں ٗ ٹانک ٗھنگو ٗچارسدہ ٗنوشہرہ اور مانسہرہ اب تو خیر یہ سب علاقے ضلع کا درجہ اختیار کر چکے ہیں ٗ ٹانک اس لئے اہم تھا کہ وہ جنوبی وزیرستان کے دہانے پر واقع تھا اور ایک لحاظ سے سیمی ٹرائبل semi tribal علاقہ تصور کیا جاتا تھا کہ جہاں مسعود قبیلے کی ایک بڑی تعداد بھی آ باد تھی ٗہنگو کرم ایجنسی کے نزدیک واقع تھا اور اورکزئی قبیلہ اچھی
خاصی تعداد میں یہاں آ باد تھا ٗچارسدہ اور مانسہرہٗ مہمند اور کالا ڈھاکا کے ملحقہ علاقوں کے قرب میں واقع ہونے کی وجہ سے انتظامی طور پر نہایت اہمیت کے حامل تھے بہت کم لوگوں کو پتہ ہے کہ 1928 ء میں سکندر مرزا بھی اسسٹنٹ کمشنر ٹانک رہے تھے جو بعد میں پاکستان کے صدر بھی بنے تھے سکندر مرزا فوج سے انڈین پولیٹیکل سروس میں آئے تھے اور انہوں نے اپنی سول سروس کا ایک بیشتر وقت وزیر ستان میں بھی بطور ایک کامیاب پولیٹیکل افسر گزارا تھا1950 ء کے اواخر میں اس وقت کی حکومت کا اسکندر مرزا کی زیر نگرانی فقیر آ ف ایپی سے ڈائیلاگ چل رہا تھا اس اثنا مارشل لا لگ گیا اور ڈائیلاگ کا وہ سلسلہ منقطع ہو گی1940ء کے لگ بھگ ہٹلر نے کابل میں اپنے سفارت کاروں کے ذریعے فقیر آف ایپی سے روابط کی کوشش کی کیونکہ فرنگیوں کیخلاف ہٹلر بھی جنگ کر رہا تھا ٗپر وہ بیل منڈھیر نہ چڑھ سکی جب بھی کوئی مورخ وزیرستان کی تاریخ لکھے گا تو وہ فقیر آف
ایپی کے ذکر کے بغیر نا مکمل تصور ہو گی انہوں نے فرنگیوں کیخلاف گوریلا جنگ کے دوران اپنا بیشتر وقت میر علی کے گاؤں میں بھی گزارا تھا ٗحالات 1936 ء میں اس وقت خراب ہوئے جب اسلام بی بی کا معروف قصہ عام ہوا ایک ہندو لڑکی اپنے گاؤں کے ایک مسلمان لڑکے کے عشق میں گرفتار ہو کر مسلمان ہوئی ٗ شادی کے بعد اس کا نام اسلام بی بی رکھ دیا گیا تو اس کی ماں نے اس مسلمان کے خلاف پولیس میں پرچہ کٹوا دیاٗمیڈیکل رپورٹ سے وہ نابالغ ثابت ہوئی تو اسے ماں کے حوالے کیا گیا اسے مسلمان سے ہندو بنانے کیخلاف بنوں اور شمالی وزیرستا ن میں احتجاجی تحریک شروع ہوئی جس کی قیادت فقیر آ ف ایپی نے کی جوفرنگیوں کے انخلاء تک جاری رہی۔