مجرمانہ طرز عمل

جرم کسی بھی ملک و معاشرے کا سب سے ”اہم مسئلہ“ ہوتا ہے۔ جرم کا تعارف ایسی سرگرمیوں یا کاموں سے کیا جاتا ہے جو ریاست کی طرف سے عوام کے تحفظ کے لئے ممنوع قرار دیئے گئے ہوں اور جرم کا ارتکاب کرنے والے کو قانون کے مطابق سزا دی جائے تاکہ بحیثیت مجموعی معاشرے کو محفوظ و مامون بنایا جا سکے۔ جرائم کے کئی پہلوؤں میں سماجی‘ سیاسی اور معاشی یعنی غربت جیسے محرکات شامل ہیں۔ بلاشک و شبہ اِن جرائم (انتہائی روئیوں) کے مجموعی طور پر معیشت و معاشرت پر تباہ کن اثرات مرتب ہوتے ہیں لیکن جہاں غربت‘ مہنگائی (اَفراط زر)‘ اِنتقام پر مبنی سیاست‘ معاشی غیریقینی (عدم اِستحکام و عدم مساوات)‘ طبقاتی تقسیم‘ اقربا پروری اور بڑھتی ہوئی بدعنوانی وغیرہ جیسے طوفان اُٹھ رہے ہوں‘ جہاں توانائی بحران اور بڑھتی ہوئی آبادی پر کسی کا ضبط (کنٹرول) نہ ہو‘ جہاں جرائم کی شرح اور اِس میں اضافے پر تعجب کا اظہار نہیں ہونا چاہئے۔ اعدادوشمار سے واضح ہے کہ پاکستان میں جرائم کی شرح ہر سال بڑھ رہی ہے اور اِس کے بنیادی محرکات ’معاشی کساد‘ اور ’ذہنی و فکری انتشارات‘ ہیں! جرائم کا ارتکاب اگر کم آمدن رکھنے والے یا غریب طبقات میں ہو رہا ہے تو اِنہی جرائم کی جڑیں سرمایہ دار طبقات میں بھی پھیلی دکھائی دیتی ہیں اور یوں جرائم کی وجہ سے پورا معاشرہ اندر ہی اندر سے کھوکھلا ہو رہا ہے! لمحہئ فکریہ ہے کہ جرائم کا باعث بننے والے رویئے درحقیقت اُن ’ترغیبات‘ کا نتیجہ ہوتے ہیں‘ جنہیں دانستہ طور پر نظرانداز کیا جاتا ہے اور اِن کے بارے میں نہ خاطرخواہ حساسیت پائی جاتی ہے اور نہ ہی معاشرہ اِس مسئلے کے بارے میں زیادہ بات کرنا پسند کرتا ہے۔ ضرورت کو سمجھنا اور حقیقت کا ادراک کرنا ہوگا کہ جرائم‘ قوانین و قواعد‘ ریاستی اداروں اور بالخصوص جرائم کی نفسیات بارے قومی سطح پر تبادلہئ خیال ہونا چاہئے۔گوجرانوالہ (پنجاب) میں سترہ سالہ لڑکے (علی حیدر) نے عید الاضحی کے لئے نئے کپڑے نہ دلوانے پر اپنی ماں کو قتل جبکہ بہن کو ڈنڈے مار مار کر زخمی کر دیا۔ تین بہنوں کے اِس اکلوتے بھائی کا والد فوت ہو چکا ہے جبکہ والدہ چار بچوں کی واحد کفیل تھی۔ پولیس نے کم عمر مجرم کو گرفتار کرتے ہوئے ریاست کی مدعیت میں ابتدائی تفتیشی رپورٹ (ایف آئی آر) درج کی ہے۔ بچوں کی قوت برداشت کم ہونے اور اُن کے طیش میں آنے سے جنم لینے والے جرائم کسی ایک صوبے یا علاقے میں نہیں بلکہ پورے پاکستان میں تواتر سے رونما ہو رہے ہیں۔ اِن میں موبائل فون کے ذریعے پُرتشدد کھیل کھیلنے والے زیادہ متاثر دکھائی دیتے ہیں اور ایسے جرائم بھی رپورٹ ہوئے ہیں جس میں ایسے کھیل  کھیلنے سے منع کرنے والی ماں کو قتل کر دیا گیا۔ اِس مرحلہئ فکر پر بنیادی سوال یہ ہے کہ بچوں میں ”انتہائی غصے“ کی حالت سے کیسے نمٹا جائے جبکہ اِس کے لئے الگ سے تربیت و شعور چاہئے۔ جو والدین کسی بھی طرح کے دباؤ کی کیفیت سے گزر رہے ہیں اُنہیں یہ دباؤ بچوں کو منتقل نہیں کرنا چاہئے کیونکہ بالعموم غصے اور محسوسات (فیلنگز) کا اظہار بچے گردوپیش اور بالخصوص والدین ہی سے سیکھتے ہیں۔بچوں کو قانون اور سزاؤں سے اِس حد تک خوفزدہ نہیں کیا جا سکتا کہ وہ اپنی اِصلاح کر لیں۔ بچے کم عمر ہوتے ہیں کم عقل نہیں ہوتے اور یہی وجہ ہے کہ اُن کے ہاں قوانین اور سزاؤں سے متعلق الگ قسم کے تصورات پائے جاتے ہیں‘ جس پر باغیانہ سوچ حاوی ہوتی ہے لیکن اگر اِن کم عمروں کو اوائل ہی سے اِنسان اور انسانیت کا احترام سکھا دیا جائے تو یہ ’انسان دوستی‘ پر مبنی عالمی منشور کے عالم بن سکتے ہیں جس کی بدولت دنیا امن و امان کا گہوارہ بن سکتی ہے۔ توجہ طلب ہے کہ آج ایک ایسا معاشرہ تعمیر چاہتا ہے جو دنیا کے اسباب اور زیادہ سے زیادہ مال و دولت جمع کرنے کو عملی زندگی میں ”کامیابی“ کی دلیل سمجھتا ہے۔ سوال اُٹھ رہے ہیں کہ بچوں کی ذہنی صحت کا خیال کیسے رکھا جائے؟ وہ نفسیاتی دباؤ جو کبھی صرف بڑوں کو ہوتا تھا لیکن اب بچے بھی ڈپریشن کا شکار ہیں تو اِنہیں منفی سوچ سے کس طرح محفوظ رکھا جائے؟ اِس بابت کلینیکل سائیکولوجسٹ محترمہ ناہید کسانہ کا کہنا ہے کہ بچے بڑوں کی نسبت زیادہ جلدی ذہنی دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ بچوں کو جسمانی طور پر فعال رہنے اور کھیل کود کے لئے بھی وقت ملنا چاہئے جبکہ موبائل فون بچوں کی ذہنی صحت اور خاندانی نظام کو متاثر کرنے کا باعث بن رہا ہے۔ جن بچوں کی ’فزیکل ایکٹویٹی‘ کم ہے‘ اُن کے والدین کو چاہئے کہ اِس کا اہتمام کریں۔ والدین کو جس ایک بات پر سب سے زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ اپنے بچوں سے دوستی (فرینڈشپ) کی بجائے وہ اِن کی تربیت (پیرنٹنگ) پر توجہ دیں کیونکہ بچوں کو ’فرینڈشپ‘ کے مواقع گھر سے باہر ملتے ہیں جبکہ گھر کے اندر اُنہیں رہنمائی (پیرنٹنگ) کی ضرورت ہوتی ہے۔ بچوں کے اندر چھپی اُن کی تخلیقی صلاحیتوں کو اُبھارنے کے لئے والدین سے زیادہ بہتر ’رہنمائی‘ اور ’موافق ماحول‘ کوئی دوسرا فراہم نہیں کر سکتا۔ بچوں کی نفسیاتی فلاح و بہبود کے حوالے سے یہ پہلو بھی پیش ِنظر رہے کہ کچھ بچے ایسے روئیوں کی طرف مائل ہو جاتے ہیں جہاں وہ دوسروں کو نقصان پہنچا کر سکون محسوس کرتے ہیں اور اُنہیں کسی دوسرے شخص کا درد محسوس نہیں ہوتا اِسے نفسیاتی اصطلاح میں ’بُلنگ (Bullying)‘ کہا جاتا ہے جو ایک قسم کی عادت بن جاتی ہے۔ ہمارے بچے اپنے گردوپیش کے بارے کس طرح ’حساس‘ ہوں اور وہ دوسروں کے لئے تکلیف یا آزار کا باعث نہ بنیں اِس کے لئے اُنہیں گھر اور تعلیمی اداروں میں تعلیم و تربیت (توجہ) کی ضرورت ہے تاہم یہ دونوں تربیت گاہیں کسی حد تک‘ بچوں کو عمومی اخلاقی اقدار سے آگاہ تو کر رہی ہیں لیکن بچوں کو ذہنی (شعوری) طور پر تیار نہیں کر رہیں کہ وہ دوسروں کی دیکھا دیکھی کسی شخص کی سماجی یا مالی حیثیت سے مرعوب نہ ہوں۔ وہ انسانیت سے پیار اور بلاتفریق ہر کسی کا ادب و احترام بجا لائیں۔ یہی وہ بنیادی کمی ہے جو گھر سے شروع ہو کر گھر ہی کی چاردیواری میں ختم ہو رہی ہے۔