اب دیکھیں پٹرول کتنا مہنگا ہوا مگر مجال ہے ہمارے ماتھے پر بل پڑا ہو بلکہ ہمیں تو اب تک یہ بھی معلوم نہیں کہ پٹرول میں فی لیٹر کتنا اضافہ ہوا ہے ہمارے ماتھے پہ نہ تو پسینہ آیا اور نہ ہم نے کوئی گلہ کیا ٗبے حسی کا یہ عالم بھی تو ہر ایک کو حاصل نہیں ٗکبھی کبھی اس بیدارحس کے مردہ ہوجانے میں فائدہ ہو تا ہے۔اس سے پٹرول کے مہنگا ہونے کا نہ تو پتا چلے گا اور نہ کوئی بندہ الجھن کا شکار ہو گا ٗہوتا ہے جتنا مہنگا ہو ٗکیونکہ جب جب تیل کے نرخوں میں زیادتی ہوئی ہم نے تب تب کہا اور لکھا کہ تم جتنا بھی مہنگا کر لو ہم نے اپنی دو پایوں کی چاند گاڑی میں سو کا پٹرول ہی ڈلوانا ہے ٗ مگر اب یہ حالات چل رہے ہیں کہ معلوم نہیں ڈالتے تو سو کا ہیں مگر راستے ہی میں چاند گاڑی آگے چلنے سے معذوری ظاہر کردیتی ہے اور بائیک کو لٹا کر الٹا پھر سیدھا کر کے اس کی رگوں میں باقی ماندہ پٹرول کو کھینچ تان کر نیچے لاتے ہیں پھربائیک کو پٹرول پمپ تک سٹارٹ کر کے قریب ہی کہیں پہنچا دیتے ہیں ہاں اگر یہ پٹرول کا خفیہ بیک اپ بھی میل ڈیڑھ میل تک ساتھ دینے کے بعد جواب دے جائے تو مست گائے کی طرح اس لوہے کے گھوڑے کو گھسیٹ گھسیٹ کر لے جانا پڑتا ہے۔پٹرول کے فی لیٹر نرخ اسی لئے معلوم نہیں کہ ہم نے کبھی لیٹر پٹرول ڈالنے کا تکلف ہی نہیں کیا کیونکہ سو میں ہمارا بیشتر کام نپٹ جاتا تھا ٗکبھی پچاس کا پٹرول بھی ڈال لیتے تھے۔ اس پربھی کام چل جاتا تھا۔ بلکہ ”اک تم ہی نہیں تنہا الفت میں میری رسوا۔ اس شہر میں تم جیسے دیوانے ہزاروں ہیں‘۔‘یہاں تو پٹرول پمپ پہ پہنچ جاؤ تو سو پچاس کے پٹرول کے خریدار درجنوں مل جاتے ہیں۔اس سے دل کو ایک سکون سا مل جاتا ہے کہ چلو جو سب کاحشر وہ ہمارا بھی سہی۔ اس موقع پرشرمندگی تو محسوس ہوتی ہے مگر جہاں ہم سو کا ڈالنے والے سخاوت کا مجسمہ ہوں وہاں اگر پچاس کا ڈلوانے والامل جائے تو وہاں اپنا آپ اچھا لگنے لگتا ہے ٗ آنیوالے دنوں میں ہم جیسے سو پچاس والے تو گھر میں بیٹھ جائیں گے اور پانچ سو والے کہیں کہیں اگر اپنے بائیک کے ساتھ ساتھ شہر کی سڑکوں کو روندتے ہوئے مل گئے تو مل گئے۔پہلے تو صاحبِ حیثیت لوگوں نے پشاور کے رش کے ہاتھوں ناک میں دم ہوجانے کی صورت میں اپنے گھروں کے گیرج میں اپنی گاڑیاں مکمل طور پر لاک کر کے بائیک پر آنا جانا شروع کر دیاتھا۔ مگر اب تو وہ بھی بائیک کے ہوتے سوتے اپنی سرگرمیاں محدود کردینے کی نازک اور ابتر صورتِ حال کا شکار ہو گئے ہیں بہت عیش کرنے کو جی چاہا تو کہیں پٹرول ڈلوا کر اسلام آباد کی ٹھنڈی ہواؤں کا جو ان دنوں کاٹنے لگی ہیں ٗ لطف لینے چلے گئے تو چلے گئے۔ پھر شوقیہ کار سوار تو اب وہ مزے اگر ڈھونڈیں تو ڈھونڈے نہ ملیں۔جی میں ہے کہ اب کھانسی والے شربت کی چھوٹی بوتل کوخالی کر کے اس میں مقدور بھر پٹرول ڈال کر قمیض کی سائیڈ کی جیب میں ٹھونس لیں۔پٹرول تو اکثر راہ میں ختم ہوجاتا ہے۔سو جیب کو ٹٹول کر وہ بوتل نکالیں اور ٹینکی میں اوندھے منہ گرا دیں۔ کم از کم یہ تو ہوگا کہ ٹینکی میں پٹرول کے ختم ہوجانے کی بابت پہلے سے آگاہی مل جائے تو اس وقت قریب کے پٹرول پمپ تک بائیک کو پہنچا تو سکتے ہیں۔