کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے عرصہ دراز سے پاکستان کی معاشی اور مالی خود مختاری کیلئے خاطر خواہ پالیسیاں نہیں بنائیں اور ہم عرصہ دراز سے بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے قرض لے کر اپنی معیشت کو ترقی دینے کی کوششو ں میں لگے رہے ہیں حالانکہ ہمیں قدرت نے بے بہا خزانوں سے نواز ہے۔ جن سے فائدہ اٹھانا ضروری ہے۔اگر ہم اپنی معیشت کو ملکی وسائل سے پروان چڑھائیں اور صنعت کو بھی مقامی طور پر بننے والی مشینریوں سے آراستہ کرنے کا انتظام کریں تو بہت سے مسائل خود بخود حل ہوجائیں گے۔اس جملہ معترضہ کے بعد کچھ ملکی اور بین الاقوامی امور پر نظر ڈالتے ہیں۔ سیکریٹری الیکشن کمیشن کے اس بیان پر کسی پاکستانی کو حیرت نہیں ہوئی بلدیاتی انتخابات کے انعقاد میں صوبائی حکومتوں نے خاطر خواہ دلچسپی نہیں دکھائی پر کسی طرح الیکشن منعقد کرائے گئے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس ملک میں لوکل گورنمنٹ اس لیے جڑ نہیں پکڑ سکی کہ ہمارے پارلیمانی نمائندے بھلے ان کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو وہ مقامی حکومتوں کے زیادہ حق میں دکھائی نہیں دیتے اورجب تک اس ملک میں لوکل گورنمنٹ جڑیں نہیں پکڑے گی عوام کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔دوسری طرف بین الاقوامی منظر نامے پر اس وقت جو مسائل ہیں ان میں غذائی قلت نمایاں ہے۔ خاص طور پر افریقہ اس کا زیادہ شکار ہے۔ کیونکہ روس یوکرین جنگ سے افریقہ کے خطے کو غذائی ضروریات پوری کرنے کیلئے شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
ماہرین کے مطابق بیشتر افریقی ممالک اپنے پاس موجود زرعی وسائل کا بہتر استعمال کر کے دنیا کوبھی خوراک فراہم کر سکتے ہیں۔ فروری 2022 میں شروع ہونے والا بحران یورپی تھا۔ تاہم روس کے یوکرین پر حملے کے نتیجے میں پیدا ہونے والے حالات کا سب کو نقصان پہنچا ہے۔ اناج اور دیگر زرعی مصنوعات کی رسد صرف ایک ہی جھٹکے میں کم ہوگئی جس سے یہ امر واضح ہوتا ہے کہ زیادہ تر ممالک غذائی اجناس درآمد کرتے ہیں۔اقوام متحدہ کے زراعت سے متعلق عالمی ادارے کی تنزانیہ سے تعلق رکھنے والی ماہر معاشیات کے مطابقنا صرف یوکرین کے تنازعے، بلکہ کورونا وائرس کی وبا نے بھی دکھایا ہے کہ کس طرح غذا کی فراہمی کے ہمارے نظام غریب ترین لوگوں کے لیے کام نہیں کر رہے ہیں۔اس ماہر معاشیات کے مطابق کورونا وائرس سے پھیلنے والے وبائی امراض کے نتیجے میں انفرادی گھرانوں پر مالی بوجھ پہلے ہی تیزی سے بڑھ چکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اب لوگوں کی 60 سے 70 فیصد آمدنی کھانے پر خرچ ہو رہی ہے، زیمبیا، ملاوی اور جمہوریہ کانگو سمیت بہت سے افریقی ممالک خوراک برآمد کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ زرعی پیداوار کیلئے زمین کے بڑے بڑے ٹکڑوں کے حامل یہ ممالک اپنی ضرورت سے زیادہ پیداوار کے اہل ہیں۔تاہم یہاں کے حکمرانوں نے ملکی وسائل سے بھر پور استفادہ کرنے کی بجائے بیرون ملک سے غذائی اجناس کی درآمد پر ہی توجہ مرکوز رکھی جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج یہ ممالک غذائی قلت کا شکا رہیں باجود اس کے کہ ان کے پاس وسیع زمین کے قطعات موجود ہیں جن کو قابل کاشت بنانے پر توجہ ہی نہیں دی گئی ہے۔