تصدیقی مراحل

پاکستان اور دیگر ترقی پذیر ممالک سے بیرون ملک جانے والوں کو اپنی قانونی و تعلیمی دستاویزات کی تصدیق کروانا ہوتی ہے اور یہ خاصا مشکل و پیچیدہ مرحلہ ہے کیونکہ اسناد کے تصدیقی مراحل بڑا مسئلہ رہا ہے جس پر توجہ دینے کی ضرورت سے متعلق مطالبات شروع دن سے ہو رہے ہیں۔ موجودہ وفاقی حکومت کی تعریف بنتی ہے کہ اِس نے ’اپوسٹیل کنونشن‘ کی رکنیت حاصل کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے جس کے قواعد ’ہیگ کانفرنس‘ نے 1960ء میں ایک کنونشن کی صورت تیار کئے گئے تھے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے صدر پاکستان عارف علوی سے درخواست کی تھی کہ وہ مذکورہ کنونشن میں شمولیت کی منظوری دیں اور صدر مملکت نے بنا تاخیر اس کی باضابطہ منظوری دے دی ہے اور اب حکومت پاکستان اس عمل کو آگے بڑھانے کیلئے باضابطہ کوششوں کا آغاز کرنے جا رہا ہے۔ اطلاعات کے مطابق عالمی ضرورت کے مطابق دستاویزات کی تصدیق کے عمل میں تبدیلیاں قریب چھ ماہ میں مؤثر (لاگو) جائیں گی۔ وزیر اعظم پہلے ہی وزارت ِخارجہ سے کہہ چکے ہیں کہ وہ پاکستان بھر میں اپنے متعلقہ ملازمین کو نئے میکانزم کے مطابق دستاویزات کی تصدیق‘ توثیق اور قانونی شکل دینے سے متعلق آگاہ و تربیت کریں۔ پاکستان میں متعلقہ سٹیک ہولڈرز کا یہ دیرینہ مطالبہ رہا ہے کہ ملک باضابطہ طور پر ’اپوسٹیل کنونشن‘ کا رکن بن جائے جس کے بغیر عوامی دستاویزات کو بین الاقوامی سطح پر قبولیت حاصل کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
 اس کنونشن میں شمولیت کے بعد پاکستان اس معاہدے کے تقاضوں کے مطابق دستاویزات کی تصدیق کر سکے گا جس سے 122ممالک شامل ہیں اُور اِن ایک سو بائیس ممالک تک پاکستانی دستاویزات کو تسلیم کرنے میں آسانی پیدا ہوگی اور مذکورہ کنونشن کے رکن ممالک کے دفتری و ادارہ جاتی کام کاج تک رسائی کے نئے مواقع سامنے آئیں گے۔ یہ نہ صرف پاکستان میں پیدا ہونے والی دستاویزات کا معاملہ تھا بلکہ دیگر ممالک کی عوامی دستاویزات کو بھی پاکستان میں تصدیقی مراحل سے گزرتے ہوئے مشکلات کا سامنا رہتا تھا کیونکہ پاکستان نے عالمی معاہدے کی توثیق نہیں کی تھی اُور مذکورہ الحاق نامے پر دستخط نہیں کئے ہیں جس کی وجہ سے مذکورہ کنونشن کے رہنما خطوط کے مطابق عوامی دستاویزات کی منظوری یا تصدیق کے لئے پاکستان کو ایک جائز ملک کے طور پر قبول کیا جاتا ہے۔
 ایک بار جب کوئی ملک اِس قسم کے کنونشن کا رکن بن جاتا ہے تو دیگر تمام رکن ممالک میں اُس کے شہریوں کو اپنی دستاویزات کی مزید توثیق کی ضرورت نہیں ہوتی۔ چونکہ زیادہ تر ممالک میں تصدیق اور قانونی حیثیت کا اپنا اپنا عمل ہوتا ہے‘ اس لئے عالمی معیار کے مطابق عوامی دستاویزات کی تصدیق آسان عمل نہیں ہوتا بلکہ یہ اِس کے مراحل و طریقہ کار مہنگے اور بوجھل ہیں‘ جنہیں کم وقت میں طے کرنے اور طریقہ کار کو عالمی معیار کے مطابق آسان و شفاف بنانا ممکن ہے۔ پاکستان جب دستاویزات کی عالمی تصدیق کمیٹی کا رکن بنے گا تو امید ہے کہ بیرون ملک مقیم اور عازم لاکھوں اوورسیز پاکستانیوں کے ساتھ پاکستان اور دیگر ممالک میں ان کے اہل خانہ اور کاروباری شراکت داروں کو بھی دستاویزی تصدیق کے حوالے سے بہتر سہولیات میسر آئیں گی۔
 روایتی طور پر دستاویزات کی بین الاقوامی قبولیت میں بہت سی رکاوٹیں حائل تھیں عالمی کنونشن کی مدد سے کم کرنا ممکن ہو جائے گا اور اب ایک ہی نوٹری کی تصدیق سے حاصل ہونے والا ’اپوسٹیل سرٹیفکیٹ‘ کافی ہوگا۔ کنونشن کے آغاز کے تقریباً نصف صدی بعد دوہزارچھ میں الیکٹرانک اپوسٹیل پروگرام (ای ایپ) بھی متعارف کرایا گیا تھا جو دنیا بھر میں دستاویزات کے الیکٹرانک اجرأ اور تصدیق سے متعلق ہے۔ اس طرح کے کثیر الجہتی معاہدوں جہاں پاکستانیوں کو مدد ملے گی وہیں اِس سے قانونی تعاون میں بھی بہتری آئی ہے۔ فیصلہ ساز اگر عوامی مشکلات کے حل بارے سوچیں اور اِس طرح کے چھوٹے چھوٹے مسائل کے حل پر توجہ دیں تو پاکستانیوں کے بہت سارے بڑے مسائل اور عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ میں بہتری آئے گی۔ عوامی دستاویزات کی تصدیق کے نظام کو عالمی نظام سے مربوط اور جدید بنانا درحقیقت صحیح راستے (سمت) کا انتخاب ہے اور اِس پر گامزن ہو کر صرف عوام بطور صارفین ہی نہیں بلکہ حکومت ِپاکستان کیلئے بھی عالمی رابطہ کاری اور تجارتی و کاروباری طبقات بھی فائدہ اُٹھا سکیں گے۔