خیر ہو آپ کی ہم نے تو بوسٹر ڈوز لگا لی ہے۔کچھ مدت پہلے ہم نے ضرورت محسوس کی کہ جب دو لگا لی ہیں تو تیسری بھی ہونی چاہئے۔پھر وقت کے لحاظ سے تیسری کی ضرورت بھی ہے۔پھر کورونا کا تیسرا انجکشن لگایا تو ڈاکٹر سے پوچھا اب ہم بڑوں کے ٹیکوں کا کورس مکمل ہو چکا ہے نا۔مگر معلوم ہوااس کے بعد چوتھی کا آوازہ بھی ہے۔خیر ہم نے برا نہیں منایا۔کیونکہ جب تین بار کورونا حفاظتی ویکسین لگالی تو وقت آنے پر چوتھی بھی ہو اور شوق سے ہو ڈرنا کیاجان ہے تو جہان ہے۔ اس نے دنیامیں آگ کا خطرناک کھیل کھیلا۔خود تو نہ گئی مگر بہتوں کو چلتا کر دیا۔ کروڑوں لوگ اس کا نشانہ بن کر زیرِ زمین اتر گئے۔بہت پیار ے لوگ ہمارے دوست یار رشتہ دار او رمعاشرے کے مشہور کردار سب کے سب سلسلہ وار اس کا نشانہ بنے اور اس کے نشانے پر رہے۔اس کوبرا سانپ کو کچلنا ممکن نہیں۔مگر اس کے سر پر موٹے سول کے بوٹ والا پاؤں رکھ کر اس کو دبائے رکھناہے۔جیسے بی پی کی گولی روز کھا کر بلڈ پریشر کو کنٹرول رکھنا ہے۔وگرنہ کسی دن اگر اس کوبرا کے سر پر سے پاؤں ہٹا اور گولی کھانا بھول گیا تو یہ ناگ اچانک اپنا پھن پھیلا کر سر ابھار سکتا ہے۔کورونا بھی کوبرا ہے۔اس کو کچلنا ہے۔ لیکن اس کا سر مسلا نہ جا سکے تو پھر اس کو مستقل پاؤں تلے رکھنا ہوگا۔ وگرنہ کسی بھی وقت دوبارہ سر اٹھا سکتا ہے۔جیسا کہ اب ارضِ وطن میں خاص طور پر اسلام آباد او رپھر کراچی میں کورونا کوبرا نے دوبارہ سر ابھارا ہے۔تین فیصد کی شرح ہے۔جو ہفتہ پہلے کم تھی۔لیکن احتیاط نہ ہو ئی تو یہ شرح زیادہ ہو سکتی ہے۔
کورونا کی وبا نے ایک جسم سے دوسرے میں منتقل ہو کر تقریباً ہر آدمی کو کسی نہ کسی طرح شکار کیا۔ان میں وہ لوگ بہت زیادہ ہیں جو یہ کہتے تھے کہ ہمیں کورونا نہیں۔ مگر نچلی سطح کی بدلتی شکل کا کورونا تقریباً ہر آدمی کے گلے کا ہار بنا۔مگر اس ہار نے کسی کو تو ہرا دیا او رکسی کو انجانے میں اپنے امیون سسٹم کی وجہ سے فتح دلائی۔اس کی علامت مقررہ اور معین نہیں ہیں۔ مختلف علامات او رپھر علامات کے ہرگز نہ ہونے کے باوجوداس نے اپنے شکار کو دبوچا۔اب تو عالمی سطح پر اس بیماری نے اس قدر غلبہ پا لیا ہے کہ اس کو مستقل طور پر مار ڈالنا ممکن نہیں۔لہٰذا اس کے لئے ایک دو اور تین پھر چار ٹیکے لگانا ضروری ہیں۔جن کو بیماری نہیں ان کے لئے تو اشد ضروری ہے تاکہ کورونا کا تدارک پہلے سے کیا جائے۔ اینٹی بایوٹک اور ویکسین میں یہی فرق ہے۔انفیکشن ہوجانے کے بعد جسم کواینٹی بایوٹک دی جاتی ہے اورانفیکشن ہوجانے سے پہلے جسم کو ویکسین دی جاتی ہے۔جسم ٹھیک ٹھاک ہے دور دور تک انفیکشن ہونے کی کوئی علامات نہیں۔ایسے میں احتیاط کے طور پر انفیکشن ہونے سے پہلے ویکسین لگائی جاتی ہے۔تاکہ بالفرض بیماری حملہ کرے تو جسم میں مدافعتی نظام پہلے سے فعال ہو۔یہ ویکسین بیماری کو شکست دینے کیلئے انجکشن کے ذریعے پہلے سے ایک مخالف قوت کے طور پر جسم میں پہنچا دی جاتی ہے۔اب کتے کے کاٹے کی ویکسین بھی اسی سوچ کے تحت لگائی جاتی ہے۔
کتے کے کاٹے کاہلکا سا زخم بھی لگ جائے۔ اس پر پایوڈین لگانے سے زخم بھر جائے گا۔ مگرجسم پر خون کی سفید ہلکی ترین سی لکیر بھی ظاہر ہوئی تو جسم میں ویکسین کا داخل کرنااس لئے ضروری ہو گا تاکہ کتے کے کاٹے کے جراثیم مستقبل میں کہیں حملہ آور نہ ہو سکیں۔کورونا کاکیا ہے کسی کو بھی نشان زد کر کے حملہ آور ہوسکتا ہے۔اس کے لئے کسی مالدار او رکسی بڑی سرکاری اور سیاسی پھرمشہور شخصیت کی چھوٹ نہیں۔اس نے ایشین ڈان بریڈ مین ہمارے کرکٹر ظہیر عباس تک کو نہیں چھوڑا۔ جو اس وقت زیرِ علاج ہیں۔خدا کرے وہ جلد صحت یاب ہو جائیں۔ اب نمونیہ سے تو ہر سال پاکستان میں اسی ہزار لوگ مر جاتے ہیں۔یہ تعداد کورونا میں مرجانے والوں کی شرح سے بہت زیادہ ہے۔مگر نمونیہ کے مریضوں کی شرح میں ہر سال کمی بھی ہو سکتی ہے۔لیکن چونکہ کوروناجنگل کی آگ کی طرح پھیلنے وا لا مرض ہے اس لئے سمجھ دار لوگ اس سے ڈرتے ہیں عام طور سے اس مرض کی خاص طرح کی علامات ہیں جو نمونیہ سے بالکل مختلف ہیں او رمقررہ ہیں۔مگر کوروناکی علامات یا تو نہیں ہوتیں یا ہوں تومریضوں میں مشترکہ ہوں یا پھر علاقہ وار اور مقررہ وقت کے لحاظ سے بدلتی ہیں۔کیونکہ بعض لوگ اپنی سمجھ کے مطابق اس کو نمونیہ قرار دیتے ہیں۔ دنیا میں اب توڈاکٹروں نے کورونا کو عام ہوجانے پر عام سی بیماری قرار دیا ہے۔جو نزلہ کھانسی زکام اور بخار جیسی ہے۔کیونکہ ہر مہینہ دو مہینے بعد لاک ڈاؤن نہیں کیا جا سکتا۔آگے مہنگائی اور کاروبار کی خرابی او ربیروزگاری ہے تو اس بیماری کے حملہ آور ہونے کی صورت میں عوام کو بھوکوں تو نہیں مارا جا سکتا۔ اس لئے احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہئے۔