برطانیہ کی امتیازی ملک بدری پالیسی

برطانوی حکومت نے ملک میں چند مسلم ممالک سے وابستہ غیر قانونی تارکین وطن اور غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث افراد کو افریقی ملک روانڈا بھیجنے کی پالیسی نافذ کی ہے جس پر سخت تنقید کی جا رہی ہے۔برطانیہ نے حال ہی میں افریقی ملک روانڈا سے 120 ملین پاؤنڈ مالیت کا معاہدہ کیا ہے جس کے تحت 2014 سے نافذ" ملک بدری پہلے، اپیل بعد میں " پالیسی کے تحت نکالے گئے افراد کو روانڈا لے جایا جائے گا اور وہاں وہ تب تک رہیں گے جب تک ان کی اپیل پر فیصلہ نہیں ہو پاتا۔برطانوی حکومت کے مطابق اس معاہدے کے تحت غلط طریقے سے برطانیہ آنے والے اور غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث افراد کو یک طرفہ ٹکٹ دے کر روانڈا بھیجا جائے گا جہاں وہ مستقل سکونت بھی اختیار کرسکتے ہیں۔واضح رہے شمالی فرانس سے رودبارِ انگلستان عبور کرکے ان گنت لوگ اچھی زندگی کی تلاش میں برطانیہ آتے ہیں۔2021 میں بھی لوگوں کی ریکارڈ آمد سامنے آئی تھی۔ اس سال اندازوں کے مطابق ان میں 68 فیصد اضافہ ہوا اور تقریباً بیس ہزار لوگوں نے اس کی کوشش کی۔ 
برطانوی حکومت کا خیال ہے کہ برطانیہ میں سیاسی پناہ کے خواہش مندوں کو روانڈا بھیجنے سے انسانی سمگلروں کے نیٹ ورک اور کاروبار کو توڑنے میں مدد ملے گی۔ اس کی خواہش یہ بھی ہے کہ یہ لوگ برطانیہ آنے کے بجائے فرانس میں ہی رک جایا کریں۔ملک کے اندر خیراتی اور انسانی حقوق کے اداروں نے تارکین وطن کی جبری ملک بدری کی اس پالیسی اور فیصلے کو خلاف قانون، غیر انسانی، امتیازی اور شرم ناک قرار دیا۔ آرچ بشپ آف کینٹر بری سمیت برطانیہ کے چرچ رہنماؤں نے اس فیصلے کو قابل شرم قرار دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ مہاجرین کے سربراہ فلپ گرانڈی نے اسے مکمل غلط قرار دیا اور کہا کہ برطانوی حکومت کو اپنی ذمہ داری دوسروں کو برآمد نہیں کرنی چاہئے۔برطانیہ کی اس پالیسی کا سب سے افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ اس کے تحت صرف چند مسلم ممالک سے وابستہ سیاسی پناہ مانگنے والوں کو ہی ہدف بنایا گیا ہے۔ یہ پالیسی تعصب پر مبنی دکھائی دیتی ہے کیوں کہ اس کے تحت صرف البانیہ، عراق، ایران اور شام سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن ہی کو ملک بدر کیا جارہا ہے۔
برطانیہ کو حق ہے کہ وہ اپنے ملک میں کسی کو آنے دے یا آنے کی اجازت نہ دے۔ تاہم درست بات یہ ہے کہ اگر برطانیہ انہیں ملک میں نہیں رکھنا چاہتا تو نہ رکھے مگر انہیں روانڈا جیسے ملک بھیجنا چہ معنی دارد؟ وہ ان لوگوں کو اپنے ملک واپس بھیج دے تو اچھا ہوگا۔ انہیں روانڈا بھیجنے کا مطلب غالباً یہی ہے کہ برطانیہ اپنے ہاں پناہ کی تلاش میں آنے والوں کو ڈرانا چاہتا ہے کہ یہاں سے تمہیں سیدھا روانڈا بھیجا جائے گا جہاں پھر لمبے عرصے تک محبوس زندگی گزارتے رہو گے اور پھر غربت تمہارا مقدر ہوگی۔اچھے مستقبل کی آس میں برطانیہ آنے والے سبھی افراد ہمدردی، انصاف اور مساوی سلوک کے مستحق ہیں نہ کہ کسی کے رنگ، نسل اور مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک کرکے نہ صرف برطانیہ میں ان کے داخلے پر پابندی لگائی جائے بلکہ انہیں اپنے ملک واپس بھیجنے کے بجائے روانڈا جیسے غریب افریقی ملک بھیج کر ان کا مذاق اڑایا جائے اور انہیں سخت سزا دی جائے۔اس قانون کے خلاف ملکی عدالتوں میں کئی مقدمے دائر کیے گئے مگر بالاخر عدالت عظمی نے اس کی اجازت دے دی۔ اس پالیسی کے خلاف عدالت عظمی میں مقدمے کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ 2014 میں اس پالیسی کے سامنے آنے کے بعد سے ہزاروں افراد کو ملک بدر کیا گیا اور ان میں سے 72 نے باہر سے اپیلیں کیں مگر حتمی اپیل میں کوئی کامیاب نہ ہوسکا۔
الجزیرہ نیٹ ورک نے اس پر ایک مفصل رپورٹ شائع کی ہے مگر برطانوی حکومت نے اس کے مندرجہ جات کی تردید کی۔ رپورٹ کے مطابق نکالے گئے افراد میں ایسے 77 افراد بھی شامل ہیں جنہوں نے تیرہ چودہ سال برطانیہ میں گزارے تھے مگر انہیں اچانک سرکاری اہلکار جہاز میں بٹھاکر ملک سے باہر لے گئے۔ 2014 میں نافذ اس قانون کے خلاف اپیل کی ساری کارروائی آن لائن ہوتی ہے کیوں کہ درخواست کنندہ برطانیہ سے باہر ہوتا ہے اور اسے اپیل کیلئے بھی برطانیہ آنے کی اجازت نہیں ہوتی۔اس پالیسی کے مخالفین کہتے ہیں کہ انٹرنیٹ پر بیان دینا، گواہی لینا اور جرح کرنا بعض اوقات مشکل بلکہ ناممکن ہوجاتا ہے۔ کیوں کہ اکثر درجنوں گھنٹوں کی کال کرنی پڑتی ہے اور سماعت میں انٹرنیٹ کسی بھی وقت بیٹھ سکتا ہے۔برطانوی وزارت داخلہ کے ریکارڈ کے مطابق 2016سے 2020تک 43000 افراد کو برطانیہ سے جبری طور پر واپس کیا گیا۔
 حکومت کے ترجمان کے مطابق ہماری ترجیح برطانوی عوام کا تحفظ ہے‘یاد رہے پچھلے ہفتے برطانیہ سیاسی پناہ کے متمنی افراد کو ایک جہاز کے ذریعے روانڈا لے جانے والا تھا کہ یورپی عدالت برائے انسانی حقوق نے اس پرواز پر پابندی لگا دی اورجہاز نہ اڑ سکا۔تاہم برطانیہ کے سیکرٹری داخلہ نے کہا کہ ہم ملک بدری کی اس پالیسی سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ انہوں نے کہا ہے کہ برطانیہ جلد ایسی قانون سازی کرے گا جس میں ان معاملات میں برطانوی عدالتوں کو آخری فیصلہ کنندہ قرار دیا جائے گا جس کے بعد یورپی یونین کی انسانی حقوق کی عدالت اس معاملے میں مداخلت نہیں کر سکے گی اور برطانوی حکومت بھی ان کے فیصلے نظر انداز کرسکے گی۔یعنی ایک طرح سے برطانیہ نے عالمی قواعد و ضوابط سے قطع نظر اپنے ملکی مفادات کو ہی مدنظر رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔