سابقہ فاٹا سے جڑے دلچسپ حقائق

تاریخ کے جھروکوں سے وزیرستان کی عظیم تاریخی شخصیت فقیر آف ایپی کے بارے میں اپنے قارئین کو معلومات پہچانے کا جو سلسلہ ہم نے شروع کیا ہوا ہے وہ ہنوز جاری ہے۔فقیر آف ایپی گو کہ خود طوری خیل وزیر قبیلے سے تعلق رکھتے تھے پر انکے چاہنے والوں کی تعداد داوڑ‘ مسعود اور احمد زئی قبیلے سے تعلق رکھنے والوں میں بھی کم نہ تھی یہاں تک کہ بنوچی اور مروت قبیلوں میں بھی ان کے معتقدین کی تعداد کافی زیادہ تھی‘وزیرستان کا جغرافیائی محل و وقوع دنیا بھر میں منفرد اور اپنی مثال اپ قسم کاہے اور اسی منفرد جغرافیائی محل و قوع کی وجہ سے  انگریزوں نے کافی ریسرچ کے بعد سابقہ فاٹا کی گورننس کے واسطے  وہاں کے صدیوں پرانے رواجی سسٹم کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک ایسا انتظامی اور جوڈیشل نظام سابقہ فاٹا کیلئے وضع کیا تھا کہ جو اس علاقے کے لوگوں کے مزاج اور رسم ورواج کے عین مطابق تھا۔
کوئی مانے یا نہ مانے ہر یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ سابقہ فاٹا کے اکابرین جن کو عرف عام میں ملک یا مشر یا سپین گرے یعنی سفید ریش کہا گیا نے اپنے اپنے علاقوں میں نہ صرف یہ کہ امن عامہ کو  خاصہ داروں کے ذریعہ یقینی بنایا حسب ضرورت اپنے اپنے علاقوں کو حکومت پاکستان کے کارندوں کیلئے قابل رسائی بھی بنایا اور وہاں زندگی کے مختلف شعبوں میں ترقیاتی منصوبوں پر بھی عمل درآمد کروایا سابقہ فاٹا میں اجتماعی قبائلی علاقائی ذمہ داری  کے کانسپٹ  کے تحت ہر قبیلہ اپنے اپنے علاقے میں امن عامہ قائم رکھنے کا ذمہ دارہوتا تھا اور تاریخ گواہ ہے کہ ہر قبیلے نے اپنے اپنے مشران کی نگرانی میں یہ ذمہ داری بطریق احسن نبھائی جب بھی سابقہ فاٹا میں اصلاحات کی بات کی جاتی تو دو آ را ء دی جاتیں۔
 ایک راے تو یہ ہوتی کہ اصلاحات فوری اور انقلابی ہوں اس کے  برعکس دوسری رائے یہ ہوتی کہ اصلاحات کو مرحلہ وار یعنی  incremental ہونا چاہئے  برصغیر کی تقسیم میں سابقہ فاٹا کے قبائلیوں نے قائد اعظم محمد علی جناح کی پالیس سے اتفاق کیا اور بھارتی کانگریس پارٹی کی پالیسیوں کو مسترد کیا سابقہ فاٹا صرف خیبر ایجنسی، مہمند ایجنسی، باجوڑ ایجنسی، کرم ایجنسی، اورکزئی ایجنسی، شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیر ستان کاہی نام نہیں ہے اس میں پشاور کوہاٹ بنوں لکی ٹانک اور ڈیرہ اسماعیل  خان کے فرنٹئیر ریجنز بھی شامل  تھے۔ آج کل تو خیر اس علاقے میں اس دن سے ایک نئے دور کا آغاز ہو چکا کہ جس میں اس کو خیبرپختونخوا کے ساتھ ضم کر دیا گیا ہے اوراب یہ علاقے ترقی کے سفر میں باقی ملک کے ساتھ برابر کے شریک ہوگئے ہیں۔
 یہاں پر امن ا ومان کی صورتحال بھی ماضی کے مقابلے میں بہت بہتر ہوگئی ہے اور تعلیم وصحت کی سہولیات میں بھی تیزی کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔ انضمام کے بعد قبائلی علاقہ جات میں ایک نئے دور کا آغاز ہو چکا ہے۔ ماضی میں سابقہ فاٹا کا علاقہ مرکزی حکومت کے زیر انتظام ہوا کرتا تھا،  سابقہ فاٹا ملک کے دیگر علاقوں کی نسبت سٹریٹیجک لحاظ سے اس لئے زیادہ اہم تھا کہ اس کی سرحدات افغانستان سے ملتی ہیں اور افغانستان ایک عرصے سے عالمی قوتوں کی گریٹ گیم کا حصہ رہا ہے اور یہ صورت حال آج بھی جاری و ساری ہے اس ملک کے ارباب بست و کشاد کو اس علاقے کے باسیوں کی محرومیوں کو ختم کرنے  کے عمل کو مزید تیز کرنا ہوگا اور اس کی افغانستان کے ساتھ سرحدات سے پاکستان کی طرف ہر قسم کی  آ مد و رفت پر کڑی نظر رکھنا ہو گی کیونکہ تجربہ یہ بتاتا ہے کہ وطن عزیز کے دشمن اس میں ہر قسم کا شر پھیلانے کیلئے ان سرحدات کے ذریعے آمد و رفت کرتے ہیں۔