بلدیاتی نظام: عوامی استحقاق

”پنجاب لوکل گورنمنٹ بل 2022ء“ کی صوبائی کابینہ سے منظوری کے بعد صوبے میں بلدیاتی اداروں کا ایک اور طریقہ کار سامنے آیا ہے۔ سیاسی حکومتیں اقتدار کی نچلی سطح تک منتقلی کی بجائے ہر چند برس بعد بلدیاتی اداروں سے متعلق قوانین میں تبدیلیاں متعارف کراتی ہیں جبکہ ضرورت اِس بات کی ہے کہ بلدیاتی اداروں کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے دیا جائے اور قانون کے تحت بنائے گئے قواعد میں اگر کوئی خامی (کمی بیشی) رہ گئی ہے تو اِسے بلدیاتی حکومت کے نمائندے خود دور کریں۔ پنجاب میں نئے بلدیاتی قانون میں چند اچھے اقدامات کا ذکر بھی ملتا ہے جیسا کہ نوجوان طبقے کو بااختیار بنانے کے لئے نوجوانوں کے لئے مخصوص نشستوں کی تعداد میں اضافہ کیا گیا ہے اور مقامی حکومت کے اعلیٰ سطحوں پر خواتین کی بہتر نمائندگی بھی متعارف کرائی گئی ہے۔ نئے قانون میں 5 بڑے شہروں میں 9 میٹروپولیٹن کارپوریشنیں قائم ہوں گی۔ مذکورہ قانون کے تحت فیصل آباد‘ گجرانوالہ‘ لاہور‘ ملتان اور راول پنڈی میں ٹاؤن انتظامیہ کے ساتھ میٹروپولیٹن کارپوریشنز ہوں گی۔ میٹروپولیٹن کارپوریشنز چار ڈویژنل ہیڈ کوارٹرز (بہاول پور‘ ڈیرہ غازی خان‘ ساہیوال اور سرگودھا) میں بھی بنائی جائیں گی۔ 
حکومت پنجاب تیزی سے ترقی کرنے والے شہروں جیسا کہ بورے والا‘ چنیوٹ‘ فیروز والا‘ حافظ آباد‘ جھنگ‘ جہلم‘ کاموکی‘ قصور اور دیگر میں 14میونسپل کارپوریشنز قائم کرنے کا بھی منصوبہ بنا رہی ہے۔ یہ تیزی سے بڑھتے ہوئے شہر بہتر بلدیاتی نظام کے مستحق ہیں اور یہ صرف اُسی صورت میں ممکن ہے جب ان کی اپنی قائم شدہ اور کام کرنے والی میونسپل کارپوریشنیں ہوں۔ فی الوقت نہ صرف پنجاب کے مختلف شہروں بلکہ ملک کے باقی حصوں میں بھی بنیادی میونسپل خدمات خاطرخواہ فعال نہیں۔ یکے بعد دیگرے حکومتوں کی طرف سے متعارف کرائی گئی مقامی حکومتوں کے ساتھ بڑا مسئلہ یہ ہے کہ صوبائی اسمبلی اور بیوروکریٹس زیادہ تر محکموں کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہیں جو کہ اضلاع کا دائرہ کار ہونا چاہئے۔ پنجاب میں بلدیاتی حکومت کے نئے قانون کے مطابق کم از کم 10صوبائی محکموں کو ضلعی سطح پر منتقلی کیا جائے گا جو اپنی ذات میں ایک منفرد تجربہ ہوگا اور دیگر صوبے بھی یقینا پنجاب کے نئے بلدیاتی بندوبست اور اِس کی کارکردگی پر نظر رکھیں گے۔ مجوزہ نظام نے خواتین کی نمائندگی پر بھی زیادہ توجہ مرکوز کی ہے۔ روایتی طور پر ملک بھر میں مقامی حکومت اور انتظامیہ میں ہر سطح پر خواتین کا مناسب حصہ (شراکت داری) نہیں۔
 اب خواتین کو بلدیاتی اداروں میں ادنیٰ و اعلیٰ عہدوں پر ایک تہائی نمائندگی ملے گی۔ پنجاب ایل جی کمیشن تنازعات کو حل کرے گا اور بلدیاتی سیٹ اپ کی خود مختاری کے تحفظ کے لئے سرپرست کے طور پر کام کرنے کی گنجائش بھی رکھی گئی ہے۔ بلدیاتی قوانین سے متعلق دیگر صوبوں کی صورتحال پر نظر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر صوبے میں مقامی حکومتیں مشکلات کا سامنا کر رہی ہیں اور اِسی وجہ سے پے در پے تجربات کے باوجود بھی بلدیاتی نظام خاطرخواہ فعال نہیں ہو سکا یعنی عوام کی توقعات پر پورا نہیں اُتر رہا۔ اصل ضرورت یہ ہے کہ بلدیاتی انتخابات کے بعد اِن بلدیاتی نمائندوں کو اپنی آئینی اور قانونی خود مختاری کے ساتھ کام کرنے دیا جائے۔ تقریباً تمام صوبے مقامی انتظامیہ کے قیام اور کام کاج میں کسی نہ کسی مرحلے پر مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ صوبائی اسمبلیوں اور بیوروکریسی کو یہ احساس ہونا چاہئے کہ آڈٹ کرنے کے علاوہ انہیں مقامی طور پر منتخب نمائندوں کی قیمت پر مقامی معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہئے۔
 زیادہ بڑے تناظر میں دیکھا جائے تو بلدیاتی اداروں سے متعلق قوانین و قواعد کی خلاف ورزی جمہوریت کے حق میں بہتر نہیں ہے۔ تمام صوبوں میں مقامی حکومتوں کی انتظامی اور تکنیکی صلاحیت مستحکم کرنا پہلی ترجیح ہونی چاہئے اور پبلک سروس کمیشنوں کو آزادانہ طور پر اور صوبائی حکام کی کسی مداخلت کے بغیر کام کرنا چاہئے۔ دیگر صوبوں کو بھی پنجاب سے ٹول پلازوں کی ضرورت سے زیادہ تعداد ختم کرنے کے حوالے سے سبق سیکھنا چاہئے۔ زیادہ افراط زر اور ٹرانسپورٹ کے اخراجات میں اضافے کے ساتھ شہری پہلے ہی زبردست مالی دباؤ کا شکار ہیں۔ اس معاشی مشکلات کے ماحول میں صوبائی حکومتوں کو اپنی آئینی ذمہ داریاں پیش نظر رکھنی چاہئے جن کے تحت حکم ملتا ہے کہ اختیارات صوبوں سے منتخب بلدیاتی اداروں کو منتقل کئے جائیں کیونکہ عوام کا کوئی بھی نمائندہ رائے دہندگان (ووٹروں) کے جس قدر قریب اور جس قدر رسائی میں ہوگا عوام الناس اُتنے ہی مطمئن ہوں گے۔ جمہوری طرزحکمرانی میں بلدیاتی اداروں کا وجود‘ ایک ایسا ’عوامی استحقاق‘ ہے جسے برقرار و بحال رکھنا اور اِس کا خاطرخواہ احترام کے بغیر طرزحکمرانی کی اصلاح و ارتقا ممکن نہیں ہے۔