اس نے میرے دل پر خراشیں ڈال دی تھیں۔جی چاہا اس کو آگے بڑھ کر روک دوں۔بولوں ایسا مت کرو۔ مگر کس کس کو بولوں۔ پورے شہر میں ایک وقت میں ہمارے شہزادے اسی طرح اہلِ دل کے سینوں پر مونگ دل رہے ہوتے ہیں۔ اندر اندر حساس بندوں کے دامنِ دل کو پُر خراش کرتے ہیں۔کس کس کو روکا جائے گا۔ ان کو خود کیوں احساس نہیں ہوتا۔ یہ لوگ صرف اپنے گھر ہی کو گھر سمجھتے ہیں۔ اپنا شہر اپنا ملک ان کو اپنا آشیانہ اپنا نشیمن محسوس نہیں ہوتا۔ ایک پک اپ گاڑی میں سریہ ڈال کر کہیں لے جا رہے تھے یا کہیں سے لا رہے تھے۔ مگر بہت برا کر رہے تھے۔ اس وقت جو سریہ لچک کے سہارے زمین پر جھول کر سڑک کو چھورہا تھا۔ اس کارپٹ روڈ کے سینے پر جُھریاں ڈال رہا تھا۔ اس کو بدنما اور بدصورت کر نے پر تُلا ہوا تھا۔جیسے آندھی او رجھکڑ چلے اور بنا ہیلمٹ گھاس پھونس تیلے تنکے آنکھوں کی طرف جوں مقناطیس کی طرف کیل ہوں بڑھنے لگیں۔اس وقت میری آنکھوں میں دھول جھونکی جانے لگی۔
یہ منظر مجھے بہت برا لگا۔خود سڑک کی چیخ و پکار سماعت پر ہتھوڑے برسانے لگی۔یوں محسوس ہوتا کہ راستہ کرلاتے ہوئے کہہ رہاہومیں تو وہ ہوں جو تم کو اپنی منزلوں تک پہنچاتا ہوں۔میری کوشش ہوتی ہے کہ تم لوگوں کو یہاں سے گذرتے ہوئے کوئی زحمت نہ ہو۔ مگر تم ہو کہ یہ حقِ نمک ادا نہیں کرتے۔خود اپنے محسنوں کو ختم کرنے والے ہو۔مت کرو ایسا۔ ایسا کرنے سے خود تمہیں تکلیف ہوگی۔تمہارا اپنا راستہ برباد ہو جائے گا۔ کیا تم نے اسی راہ سے واپس نہیں آنا یا صرف جاتے جانا ہے۔تمھاری تو واپسی کی راہ بھی یہی ہے جس پر چل کر آگے گئے ہوں۔ ایسی راہوں کو کیوں مسمار کرتے ہوجنھوں نے تم کو اپنی اپنی منزل سے آشنا کیا ہے۔وہ دل خراش آواز جو سریہ او رسڑک کے ٹکرانے سے نکل رہی تھی میرے دل پر برچھیاں چلا رہی تھی۔ روز اس طرح کے بے شمار واقعات سامنے آتے ہیں۔مگر کسی کسی دل میں یہ منظر گھس کر دل کے شیش نگر کوکرچی کرچی کر دیتا ہے۔ہم لوگ کیوں ایسا کرتے ہیں۔
کیوں یہ غلط سمجھتے ہیں کہ ہمارا شہر ہمارا گھر نہیں۔ان لوگوں کا جہاں بس چلتا ہے اس شہر کے کوچہ کوچہ کو ویران کرنے تباہ کرنے خراب کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔جہا ں جس کا گھر ہے او رنیا بنایاہے اس کااتنا خیال کرتے ہیں کہ اگر وہاں گھر کے مرکزی دروازے کے باہر کوئی نالی نہیں تو بیچ سڑک کے کھڑے ہوکر مزدور منگوا کر برما مشین اور الیکٹرک کٹر کے ذریعے سڑک کوچھیل کر اس میں چھوٹی نالی بنا لیتے ہیں۔ پھر کمال یہ کہ جب ان کا مقصد پورا ہو جاتا ہے تو سڑک کو اسی حالت میں چھوڑ دیتے ہیں۔پھر وہی نالی عین سڑک کے درمیان میں ایک کھڈا بن جاتی ہے۔جہاں سے گاڑیاں گذرنے میں احتیاط کرتی ہیں۔وہ نالی پھر کچھ مدت کے بعد بڑی نالی کا روپ دھار لیتی ہے۔اس نالی کو نہ تو اوپر سے بند کرتے ہیں او رنہ ہی کسی طرح سڑک کو ہموار کر کے گذرنے والوں کی تکلیف کا احساس کرتے ہیں۔بلکہ ایک گلی کو دیکھا کہ جہاں رہائشی مکانات بہت ہیں۔
وہاں نالی کے پانی کی روانی کو بحال کرنا تھا۔انھوں نے نفری منگوا کر پیسے لگا کر وہا ں پوری گلی کو چھیل ڈالا۔بہت لمبی نالی کو کریدا اور سیمنٹ کے نیچے اس کی پوشیدگی کو اپنا مطلب نکا ل کر ظاہر کر دیا پھر نہ اس پرکوئی بلاک رکھ کے اوپر سے بند کرنے کی کوشش ہوئی۔بلکہ وہ دو ماہ سے ایسے ہی پڑی ہے۔جس طرح خوبصورتی سے کٹر کے ذریعے زمین کو چھیدا گیا کاٹا گیا اس خوبصورتی سے اس فرش کو واپس اپنی حالت پر نہیں لائے۔ بس ان کاکام نکل گیا تھا ان کے لئے یہ بھی بہت ہے۔وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ زمین حکومت کی ہے ہماری تو نہیں ہمارا کیا ہے اگر ٹھیک کریں نہ کریں۔مگر ان کو معلوم نہیں کہ حکومتیں تو جاتی رہتی ہیں۔ہم تو کہیں نہیں جاتے۔
ہم تو اس گلی کوچے میں اس شہر میں مستقل موجودرہتے ہیں۔ہم اسی ابتری میں خوش ہو کر زندگی گذارنے کو ایک اچھاسمجھتے ہیں۔اب اس گلی کا یہ حال ہے کہ خود ان کی گاڑیاں اندر آئیں تو اوپر نیچے ہو کر آڑھی ترچھی داخل ہوتی ہیں۔مگر ان کو لاج نہیں آتی کہ یہ تو ہم نے اپنے لئے خود تکلیف ایجادکی ہے۔اگر راستے کو نوچا تھا تو کام ہوجانے پر اس کو واپس ٹھیک بھی تو کردیتے۔اگر یہی حال رہا توکہیں ہم شہرکی ساری کی ساری سڑکیں مسمار نہ کردیں۔