جون میں سخت سردی 

 حیرت ہورہی تھی کہ جون میں بھلا کیسے سخت سردی پڑ سکتی ہے پر کلائمٹ چینج کا بھلا ہو کہ امسال ملک کے کئی حصوں میں گزشتہ چند روز لوگ کمبل لے کر سوتے رہے ہیں اب خدا خیر کرے محکمہ موسمیات والے تو امسال تباہ کن قسم کی مون سون کی بارشوں کی پیشگوئی بھی کر رہے ہیں۔ ویسے امسال جیٹھ اور ہاڑ کے مہینے ایسے لگے کہ جیسے بھادوں کے مہینے ہوں کیونکہ ایسی حبس تو ان مہینوں میں نہیں ہوتی تھی جو امسال ان مہینوں میں محسوس کی گئی۔  قصہ کوتاہ اس ملک کے موسموں میں تبدیلی ضرور آئی ہے۔ان جملہ ہائے معترضہ کے بعد اب ذرا بعض اہم قومی اور عالمی مسائل کا ہلکا سا تذکرہ ہو جائے۔خبر ہے کہ بھارت نے چپکے سے افغانستان میں اپنے سفارتی دفاتر کھول دیئے ہیں جو کابل میں طالبان کے برسر اقتدار آ نے کے بعد بند ہوگئے تھے۔ پاکستان کو ماضی میں ان دفاتر کا تلخ تجربہ ہے۔ بھارت نے افغانستاں میں تجارتی سرگرمیوں کو زیادہ کرنے کی آ ڑ میں ایک درجن سے زیادہ قونصل خانے کھول رکھے تھے جن کا واحد مقصد پاکستان کے اندر دہشت گردی کی کاروائیاں کرانا ہوتا تھا۔ہمیں اس ضمن میں افغانستان کے اندر بھارتی سفارت کاروں کی سر گرمیوں پر سخت نظر رکھنی ہو گی۔ روسی صدر پوٹن اگلے ہفتے سے تاجکستان اور ترکمانستان کا دورہ کر رہے ہیں۔ فروری میں یوکرین کے خلاف فوجی کاروائی کرنے کے بعد یہ ان کا وسطی ایشیا   کا پہلا اہم دورہ ہے۔ تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبے میں وہ صدر امام علی رحمانوف  سے ملاقات کریں گے۔ لگ یہ رہا ہے کہ روس نے یوکرین میں جو فوجی کاروائی کی ہے وہ اب اپنے اختتام کے نزدیک ہے کیونکہ یوکرین کے بیشتر حصے پر روس  کا قبضہ ہو چکا  ہے اور اس حملے سے صدر پیوٹن جو سیاسی مقاصد حاصل کرنا چاہتے تھے  وہ انہوں نے حاصل کرلئے ہیں۔ وسطی ایشیا کی وہ ریاستیں کہ جو سوویت یونین سے جدا ہو گئی تھیں۔ پیوٹن نے ان کو  ایک واضح پیغام دے دیاہے کہ اگر انہوں نے امریکہ کے کہنے پر روس کے خلاف کوئی حرکت کی تو ان کا انجام بھی یوکرین سے کچھ زیادہ مختلف نہ ہو گا۔ یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی یوکرین کو روسی حملے سے بچانے میں کامیاب نہیں ہوئے۔امریکہ یوکرین اور روس کی اس جنگ میں بالکل اسی طرح ناکام ہوا ہے کہ جس طرح اس کا حشر شمالی ویت نام میں 1960کی دہائی میں ویت کانگ کے ہاتھوں ہوا تھا۔پر اس کا یہ مطلب  بھی نہیں کہ امریکہ ان واقعات سے کوئی سبق لے گا۔ وہ اب بھی خبط عظمت میں مبتلا ہے چین اور روس کے اتحاد نے اس کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ پیدا کر دی ہے۔  امریکہ کے خارجہ پالیسی ساز ادارے معروف امریکی سابق وزیر خارجہ ڈاکٹر ہینری کیسنجرکی زیر نگرانی ایسے نئے سازشی منصوبے بنا رہے ہیں کہ روس اور چین کے درمیان نفرتیں اور غلط فہمیاں پیدا کر کے کسی طرح ان کے تعلقات میں دراڑ پیدا کی جائے اور ان کے موجودہ اتحاد کو توڑا جا سکے اگر تو ماسکو اور بیجنگ میں یہ اتحاد رہتا ہے تو سمجھ لیجئے کہ اکیسیوں صدی چین اور روس کی ہی ہو گی۔یہ جو گزشتہ روز جرمنی میں جی سیون سمٹ میں شریک ممالک نے کم آمدنی والے ملکوں کو''ماحولیات سے ہم آہنگ انفراسٹرکچر تعمیرکرنے کے لیے 600 ارب ڈالر فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے یہ چین کے بڑھتے اثرات کو روکنے کی ہی ایک کوشش ہے۔امریکہ سمیت دنیا کے امیر ترین ملکوں کے گروپ جی سیون کے رہنماؤں کی سمٹ جرمنی کے صوبے باویریا میں ایلپس کے پہاڑی سلسلے کے دامن میں واقع ایلما کے مقام پر ایک تاریخی قلعے  ہو رہی ہے جس میں مرکزی موضوع روس کی یوکرین پر چڑھائی ہے۔تاہمجرمن چانسلر اولاف شولس کی میزبانی میں ہونے والی اس سمٹ کا آغاز تر قی پذیر ممالک کو ماحولیاتی تبدیلیوں کے مضمرات کا مقابلہ کرنے کے لیے 600 ارب ڈالر کے ایک انفراسٹرکچر فنڈ کے اعلان کے ساتھ ہوا۔ اسے چین میں بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا مغربی ملکو ں کی جانب سے جواب کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔جی سیون کے اس نئے فنڈ کے تحت ماحولیاتی تحفظ کے پروگرامز کے علاوہ دیگر پراجیکٹوں پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔ اس میں انگولا میں شمسی کھیتی پر دو ارب ڈالر، آئیوری کوسٹ میں ہسپتال کی تعمیر کے لیے 320ملین ڈالر اور جنوب مشرق ایشیا میں علاقائی توانائی کی تجارت کو فروغ دینے کیلئے 40 ملین ڈالرکی رقم شامل ہے۔تاہم جس طرح کہ ماضی میں دیکھاگیا ہے امریکہ مشکل سے ہی کسی ملک میں سرمایہ اس ملک کے مفاد میں لگاتا ہے بلکہ اس سلسلے میں اپنے مفادات کو مقدم رکھتا ہے۔واضح رہے کہ چینی صدر شی جن پنگ نے بیلٹ اینڈ روڈ  منصوبہ2013 میں شروع کیا تھا۔ اس میں 100 سے زیادہ ممالک میں ترقی اور سرمایہ کاری کے اقدامات شامل ہیں۔ ان میں ریلوے نظام کی ترقی، بندرگاہوں اور شاہراہوں کی تعمیر سمیت متعدد منصوبے شامل ہیں۔اب امریکہ سمیت اس کے اتحادیوں نے بھی چین کے اس منصوبے کے جواب  میں اقدامات کا سلسلہ شروع کر دیا ہے تاہم ان کے ارداے یکسر مختلف ہیں۔ چین کسی بھی ملک میں انفراسٹرکچر کو ترقی دینے کے ذریعے اس ملک میں معیشت کو مضبوط کرتا ہے جبکہ امریکہ کا مقصد محض چین کا مقابلہ کرنا ہے اور ظاہر ہے کہ وہ اس سلسلے میں اپنے مفادات کا زیادہ تحفظ کریگا۔