ہمارا محلہ چوک ناصرخان پشاورہوا کرتا تھا‘ عین چوک میں ایک دکان تھی یہاں سے ہم بچپن میں روٹیاں لاتے تھے۔ والدہ مرحومہ ایک روپیہ دیتیں‘ہم دسترخوان اٹھانے کی زحمت گوارا نہیں کرتے تھے۔کیونکہ روٹیاں لانے کے علاوہ ہمارے کھیلنے کھالنے کے اور بہت سے کام ہوتے روپیہ جیب میں ہوتا‘ساتھ ہی لکڑ منڈی تھی جہاں اس زمانے میں تمام دکانوں میں لکڑی فروخت ہوتی تھی‘ جیسے موجودہ وقت میں یکہ توت دروازے کے باہر لکڑیوں کی پوری مارکیٹ ہے پھر اس زمانے میں ایک لکڑ منڈی ڈبگری گیٹ کے باہر رامداس دروازے کی طرف جائیں تو راستے میں پڑتی تھی۔ جہاں ہمارے پوپھا کی ایک بڑی سی لکڑیوں کی منڈی تھی۔ان کا اچھا خاصا کاروبار تھا۔ پھر چوک ناصر خان لکڑ منڈی میں ہمارے دادا بھی ایک زمانے میں لکڑیوں کا کام کرتے تھے۔ہمارے بیشتر رشتہ داروں کی دکانیں اور منڈیا ں اسی چوک ناصر خان کے پاس لکڑ منڈی میں تھیں۔وقت نے ایسا پلٹا کھایا کہ اب یہاں نہ لکڑیاں ہیں اور نہ لکڑی کے برادے کی خوشبو ہے۔اب تو ٹافیاں اور بچوں کی کھانے کی کارخانے والی کیمیکل خوشبویات ہیں۔پاپڑ وغیرہ رنگین کاغذوں میں لپٹے ہوئے یہاں فروخت ہوتے ہیں۔پھر ماشا اللہ اتنا بڑا کاروبار ہے کہ یہاں گاڑیاں آتی ہیں جن سے بہت بڑا مال اتارا جاتا ہے۔ پھر یہاں سے گاڑیاں آگے دوسرے بیوپاریوں کی طرف روانہ کی جاتی ہیں اس محلہ شاہنچہ باشی کی گلی نمبر تین میں ہماری رہائش ہوتی تھی۔ ہم تو خیر وہاں سے چلے آئے مگر ہمارے بہت قریب کے رشتہ دار اب بھی وہاں رہائش پذیر ہیں‘والدہ سے ایک روپیہ لے کر جیب میں ڈال گلی کوچوں میں کھیلتے رہتے جب دوپہر ہوتی تو چوک ناصر خان میں حاجی صاحب کی دکان پر جا پہنچتے۔حاجی صاحب ایک روپے کی آٹھ روٹیاں دیتے۔پھر اتنی سخاوت اور بڑے خرچہ پر حاجی صاحب بطور چُہنگا یا تحفہ کہہ لیں ایک روٹی فالتو بھی دیتے۔چُہنگا پشوری ہندکو زبان کالفظ ہے۔جس کے روزمرہ کی دکانداری میں اپنے خاص معنی ہیں۔ جیسے آٹھ روٹیاں لینا کسی گاہک کا بڑا کارنامہ ہوتا۔ اس پر حاجی صاحب کے ہاں پیکیج ہوتا۔ جیسے کہ اب بعض بازاروں میں بعض اشیاء خریدیں تو ایک میں وہی ایک اوراضافی مل جاتی ہے۔پھر روٹی بھی عام شام روٹی تو نہ تھی۔یوں سمجھئے کہ آج کی سنگل کے بجائے ڈبل روٹی ہوتی جو اس وقت چالیس روپے کی مل رہی ہے۔آسان حساب کریں اور زیادہ تفصیل میں نہ جائیں توجو روٹیاں ایک روپے میں ہم بچپن میں اپنی جھولی میں لاتے وہ اگر آج ایک روپے میں دستیاب ہوں تو بیس روپے کی ایک سو اسی روٹیاں ہو ں۔ پھرماضی کی موٹی روٹی کو دھیان میں رکھیں تو اس تعداد کو ڈبل کرلیں۔یعنی اگر آج بالفرض ملیں توپرانے ایک روپے میں تین سو ساٹھ روٹیاں ملیں۔کیونکہ آج روٹی بیس روپے کی ہے۔یہ دور کی بات بھی نہیں۔گرانی بہت جلدی ہوئی اورتیزی سے اشیاء کے نرخ بڑھ گئے۔پھر اس کے بعد روپے کی چار روٹیاں بھی مجھے یاد ہیں پھر دو روٹیاں ہوئیں اور پھر ایک روپے میں ایک روٹی۔یہاں تک تو یاداشت کام کرتی ہے۔مگر اس کے بعد کا زمانہ بالکل یاد نہیں۔وہ ارزانی کے زمانے اب کہا ں۔ اب تو دو سال میں ہر شئے اتنی مہنگی ہوئی ہے کہ اس ایک بیس روپے کی روٹی کو حاصل کرنا بھی عام آدمی کے بس کی بات نہیں رہی۔ایک روٹی ہی کو ذہن میں رکھیں تو بات گھی دالوں تک آن پہنچتی ہیں۔ دال جو غریبوں کی خوراک ہوا کرتی تھی اب اس کھاجے کو مالدار بھی شوق سے من بھاتے کھاجے کے طور پر کھاتے ہیں۔ کیونکہ دوسری آپشن نہیں ہوتی۔