امن و امان کا قیام: بنیادی تقاضا

معاشی مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے فیصلہ سازوں کو ’امن و امان کے قیام‘ سے مشروط ’بیرونی سرمایہ کاری‘ پر بھی نظر رکھنا ہوگی کیونکہ اگر امن و مان کے مسائل کا براہ راست بیرونی سرمایہ کاری پر اثر ہوتا ہے۔سرمایہ کاروں کا پہلا مطالبہ جان و مال کا تحفظ ہوتا ہے اور اِس ہدف و مقصد کے حصول کیلئے سال 2014ء میں ’نیشنل ایکش پلان‘ بنایا گیا جس پر عمل درآمد کے نتیجے میں ملک کے طو ل و عرض میں امن و امان کی بحالی ممکن ہوئی۔ مذکورہ ایکشن پلان بیس نکات میں طے کیا گیا تھا کہ ملک بھر میں دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے کون سے اقدامات کئے جائیں گے۔ اس سلسلے میں وفاق اور صوبوں نے اپنی اپنی ذمہ داریاں بانٹ لی تھیں تاکہ دہشت گردی کے عفریت پر قابو پایا جا سکے۔ رواں ہفتے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ”گزشتہ چار سال میں نیشنل ایکشن پلان میں صوبوں کا کردار نظر انداز کرنے سے دہشت گردی میں اضافہ ہوا ہے۔“ یہ حقیقت اپنی جگہ تلخ و شیریں ہے کہ وفاقی حکومت کے ادارے قومی انسدادِ دہشت گردی اتھارٹی (نیکٹا) نے صوبوں کے ساتھ مل کر یہ سب کام کرنا تھے اور اگر صوبوں نے اپنا کردار ٹھیک سے ادا نہیں کیا تو اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ وفاق نے اس معاملے کو فروغ دینے کیلئے اپنی ذمہ داری اس طرح ادا نہیں کی جیسا کہ اسے ادا کرنا چاہئے تھا۔
 لاہور میں امن و امان سے متعلق اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ ”نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد یقینی بنانے کیلئے صوبوں کے کردار کو بحال کیا جائے۔“ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ”ملک بھر میں عوام کے جان ومال کا تحفظ یقینی بنایا جائے اور دہشت گردی کے خلاف بیانیے پر پوری قوم متفق ہے۔“ فیصلہ ساز وفاقی ہوں یا صوبائی اِنہیں یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان کو چھ ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکیج کی اگلی قسط دینے کے لئے جو چند شرائط رکھی ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ملک کو ’ایف اے ٹی ایف‘ کی گرے لسٹ سے نکلنا ہوگا۔ اس تناظر میں وزیراعظم کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ پاکستان کی معیشت کی بحالی اور ترقی کیلئے امن وامان کا یقینی ہونا ”بنیادی تقاضا“ ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ اکتوبر (دوہزاربائیس) میں ’ایف اے ٹی ایف‘ کا ایک نمائندہ اعلیٰ سطحی وفد پاکستان کا دورہ کر کے اس بات کا جائزہ لے گا کہ اِس بین الاقوامی ادارے کی طرف سے پاکستان کے گرے لسٹ نکلنے کے لئے جو شرائط رکھی گئی تھیں ان پر پوری طرح عمل درآمد ہو رہا ہے یا نہیں۔
 اسی دوران ’آئی ایم ایف‘ کی نظریں بھی پاکستان پر جمی ہوئی ہیں جو دیکھ رہا ہے کہ حکومت کی جانب سے کئے گئے مختلف اقدامات کیا ہیں اور اِن کے خاطرخواہ نتائج برآمد ہو رہے ہیں یا نہیں۔ ایف اے ٹی ایف اور آئی ایم ایف کی شرائط پر پورا اُترنے ہی کی صورت ”بیل آؤٹ پیکیج (قرض)“ کی اگلی قسط کا اجرأ ہوگا جو فی الوقت یقینی اور غیریقینی کے درمیان جھول رہی ہے!نیشنل ایکشن پلان ہو یا کوئی بھی دوسری قومی حکمت ِعملی‘ جب تک وفاق کی تمام اکائیاں مرکز کے ساتھ مل کر ملک و قوم کے مستقبل کیلئے ”ایک ہی سمت“ کا تعین نہیں کرتے اُس وقت تک کوئی بھی مقصد حاصل نہیں ہوگا‘ یہ لمحہ مساعی یک جہت ہونے کا ہے۔ پائیدار قومی ترقی اور دائمی معاشی و سماجی استحکام کیلئے نظم و اتحاد کی ضرورت ہے۔ کوئی اس وقت ملک کو سرمایہ کاری کی اشد ضرورت ہے اور اس کے لئے سیاسی اور معاشی استحکام اولین شرط ہے اس حوالے سے موجود ہ حکومت نے جو اقدامات اٹھائے ہیں وہ اہمیت کے حامل ہیں۔