کورونا کی وباایک مرتبہ پھر دوسرے روپ میں سر اٹھا رہی ہے اس لئے حکومت کو بالکل اسی قسم کے حفاظتی اقدامات سختی سے اٹھانے ہوں گے جو اس نے ماضی قریب میں لئے تھے اور جن کی وجہ سے اس موذی وبا پر کافی حد تک کنٹرول کر لیا گیا تھا۔ تمام سیاسی پارٹیوں کی بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس وقت تک سیاسی اجتماعات سے گریز کریں کہ جب تک یہ خطرہ ٹل نہیں جاتا کیونکہ اس کے دوران سماجی فاصلہ رکھنا از حد ضروری ہوتاہے‘ دریں اثنا ء مویشیوں میں پھیلی ہوئی کانگو وائرس اور لمپی سکن کی بیماری سے نہ صرف مویشی ہلاک ہو رہے ہیں بلکہ اس سے مال مویشیوں کا کاروبار کرنے والے اور قصاب بھی متاثر ہو رہے ہیں۔ ادھر ملک میں ٹریفک کے حادثات میں ہلاکتوں کی تعداد دن بی دن بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے اور متعلقہ سرکاری ادارے وہ اقدامات نہیں اٹھا رہے کہ جن سے ان کو روکا یا کم کیا جاسکتا ہے۔اس ضمن میں درج ذیل تجاویز پر اگر من وعن عمل درآمد کیا جائے تو ہماری سڑکوں پر ٹریفک کے حادثات پر کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔پہلی بات تو یہ ہے کہ ڈرائیونگ لائسنس کے حصول کے نظام کو فول پروف بنایا جائے۔
جس طرح انگلستان میں ڈرائیونگ لائنس جاری کرنے سے پہلے سو فیصد تسلی کی جاتی کہ جس کو لائسنس مطلوب ہے وہ ہر لحاظ سے مطلوبہ معیار پر پورا اترتا بھی ہے کہ نہیں اور اسے ٹریفک کے قوانینِ ازبر بھی ہیں کہ نہیں بالکل اسی طرح وطن عزیز میں بھی سختی سے کام لینا ہوگا۔ ہماری سڑکوں پر 50فیصد کے قریب جو گاڑیاں چلتی ہیں وہ مکینیکلی سڑکوں پر چلانے کے واسطے ان فٹ ہوتی ہیں۔ تب ہی تو اکثر حادثات ٹائر پھٹنے سے ہو رہے ہیں اور کئی ٹائی راڈ کے ٹوٹنے سے۔اس طرف متعلقہ پولیس کے حکام کی نظر کیوں نہیں جاتی۔ اس طرح تیز رفتاری سے گاڑیاں چلانے والوں پر ابھی تک کنٹرول اس لئے بھی نہیں کیا جا سکا کہ اس میں ملوث افراد کو قرار واقعی سزائیں نہیں دی جا رہی ہیں، معمولی جرمانے لگانے سے تیز رفتاری کرنے والوں کو اس علت سے باز نہیں رکھا جا سکتا‘ اب کچھ تذکرہ عالمی امور کا ہوجائے جہاں روس کے سابق صدر دیمتری میدویدیف نے فن لینڈ اور سویڈن کو دھمکی دی ہے کہ اگر ان دونوں ملکوں نے نیٹو میں شمولیت اختیار کی تو روسی ہتھیار ان ممالک کے سرحدوں کے قریب تعینات کیے جائیں گے۔
قومی سلامتی کونسل کے وائس چیئرمین کا یہ بیان ایک روسی ہفت روزہ میں شائع ہوا ہے۔ سابق صدر کا مزید کہنا تھا کہ روس جوابی اقدامات کرنے کیلئے تیار ہے‘ میدویدیف نے اس حوالے سے خاص طور پر اسکندر میزائل، ہائپرسونک میزائل اور جوہری ہتھیاروں والے جنگی جہازوں کا ذکر کیا۔ ساتھ ہی انہوں نے نیٹو کو خبردار کیا کہ جزیرہ نما کریمیا پر کسی بھی واقعے کے نتیجے میں روس کی جانب سے اعلان جنگ ہو سکتا ہے، جس سے تیسری عالمی جنگ چھڑ سکتی ہے۔سچ تو یہ ہے کہ تنگ آمد بہ جنگ آمد کے مصداق روس کو جنگ پر مجبور کیا گیا ہے کیونکہ اس کے پڑوس میں نیٹو ہتھیاروں کی تنصیب یقینا اسے قابل قبول نہیں اور یوکرین پر روس کی چڑھائی کے پیچھے یہی کہانی ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے یوکرین کو روس کے خلاف اڈے کے طور پر استعمال کرنے کی منصوبہ بندی کی جس کے جواب میں روس کو اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنا پڑا اور تاحال اسے اپنے مقاصد میں نمایاں کامیابی ملی ہے‘ اس نے ڈونباس خطے کو جو روس کیساتھ منسلک ہے اور بحیرہ اسود تک یوکرین کی رسائی کا ذریعہ بھی ہے کو قبضہ کر لیا ہے۔ اب اگر روس جنگ بندی پر تیار بھی ہوجائے تو اس نے جو حاصل کرنا تھا وہ کر لیا اور یوکرین کو امریکہ اور نیٹو کی دوستی میں بے پناہ نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔