ایک کہتا ہے کہ میں شلجم نہیں کھاتا دوسرا کہتا ہے میں آلو نہیں کھاتا‘ پھر کوئی کریلے پسند نہیں کرتا‘ گھر میں اگر افراد زیادہ ہوں تو یہی مسئلہ ہوتا ہے‘ باپ پروا نہ کرے ماں ضرور اس پر دھیان رکھتی ہے کہ گھرمیں کون کیا نہیں کھاتا‘ باپ تو اس چوں چوں کے مربہ والی کیفیت سے تنگ ہو کر اپنے سربراہ ہونے کی حیثیت سے کچھ بھی لے آئے تو سب کو پھر کھاناہوتا ہے‘پھر جو نہ کھانا چاہے تو بھوکا رہے‘مگر ماں کو اس بات کی طرف بھرپور دھیان رہتا ہے اور وہ بچوں کی پسند کو سامنے رکھ کرکھانا پکاتی ہے‘ناشتہ واشتہ کرلیں تو دو گھنٹے بعد اس بات کی ضرورت ستانے لگتی ہے کہ آج کیا پکائیں‘یہ اتنا مشکل سوال نہیں مگر آج کل مشکل اور بہت مشکل ہے‘خدا لگتی بات ہے ہم چھوٹے تھے تو ہمارے بھی سو نخرے تھے‘یہ نہیں کھاتا وہ نہیں کھاتا‘پھر امی جان کا وہ جہان اچھا ہو بہت خیال کرتی تھیں‘ بلکہ مجھے تو ساگ جو ہر قسم کا ہو اور جس طرح بھی پکا ہو کھانے میں زیادہ پسند ہے‘پھر ماں کو معلوم تھا کہ مجھے گوبھی بہت پسند ہے‘خیر وقت کے بدلنے کے ساتھ ساتھ اب تو حال یہ ہے کیوں پسند نہیں سب کچھ تو پسند ہے مگر مل تو جائے‘پھر زمانہ ایسا آیا کہ گوشت مرغی کلیجی مغز گردے کپورے چھوٹے گوشت کے بغیر کچھ اور اچھا ہی نہیں لگتا تھا‘ مگر حالات کے کڑوے کسیلے لمحے ایسے ہوئے کہ اب تو سبزی کو ترجیح دیتے ہیں‘ کیونکہ جسم میں اتنا زیادہ کولسیٹرول پیدا ہو چکا ہے کہ دل کو دھڑکا سا لگا رہتا ہے‘کیونکہ عمر ہی ایسی ہے‘احتیاط کرنا پڑتی ہے‘مگر ہمارے بعض بھائی بند ہیں کہ کسی چیز کو خاطر میں نہیں لاتے‘ دستر خوان کی شیٹ پر جو سامنے آیا اپنی طرف گھسیٹ لیتے ہیں اور ہپا ہپ کھانا شروع کردیتے ہیں۔
ہم نے ایسے بہادر بھی دیکھے کہ شادی کے خوانچے پر ایک ساتھ بیٹھے اپنی ہائی بلڈ پریشر کی کہانی سناسنا کر اور دوائیں نہ کھاکر بھی فخر سے چاول اڑا رہے ہوتے ہیں‘پھرنرگسی کوفتوں کے اندر انڈوں کو چیل کی طرح پنجوں سے کریدکر نوچتے ہوئے معدے میں پہنچاتے ہیں‘ مگر خوانچے میں ٹشو پیپر کے ہوتے ہوئے ہونٹ صاف کرنا بھول جاتے ہیں‘گھر میں سب انکار کریں گے‘ کسی کو کیا نہیں کھانا کسی کو کیا نہیں کھانا‘یہ بیماری کے کارن نہیں بلکہ چسکے کی وجہ سے ہوتا ہے‘ہم نے اپنی جوانی میں سب کچھ کھا پی کر ڈکار بھی نہ لیا اور اب کہ سانس پھول جاتی ہے اس بات کے قائل ہو چکے ہیں کہ سادہ خوراک جس میں گھی کم سے کم ہو زیادہ اچھا کھانا ہے‘مگر ایک زمانے سوچتے تھے وہ ہانڈی ہی کیا جس کی آبرو گھی کا تڑکا لٹ چکا ہو‘مگر کسی سبزی وغیرہ سے جو بھی انکار کرے لیکن گوشت ساتھ ہو توانکار نہیں کریں گے‘کھائیں گے پھر گوشت بھی بھنا ہوا ہو تو بڑے بڑے پرہیز کرنے والے بھی اپنی قسم توڑ دیتے ہیں‘ساتھ والوں کا دھیان بچا کر چپکے سے سب کچھ دانتوں تلے پیس ڈالتے ہیں‘کوئی آلو نہیں کھاتا لیکن آلو گوشت کی ہنڈیا پکی ہو تو وہ کھائے گا‘چکن سے تو بہت کم لوگ انکاری ہوتے ہیں‘ کریلے تو مارڈالو تب بھی ہم نہیں کھاتے تھے‘ مگر اب تو کریلے بھی نوشِ جاں کرتے ہیں‘پھر وہ بھی ہماری گھر والی نے قیمہ میں پکائے ہوں۔
زیادہ تر کھانے والے کسی نہ کسی بیماری کا شکار ہوتے ہیں‘ شوگر تو اب عام سی بیماری ہے او ر آج کل بلڈ پریشر جس کو نہ ہو اس کی دماغی حالت پر شک پڑتا ہے‘ایسے میں یہ لوگ ان بیماریوں کے ہوتے بھی ان کھانوں سے ہاتھ پیچھے نہیں کھینچتے‘وہ کھانے جن کو ان بیماریوں میں ہاتھ تک لگانا نہیں چاہئے‘اب آدمی جتنا بھی بیمار ہو مگر کھانے کی زرق برق پلیٹوں کو دیکھ کر اپنا پرہیز ضرور توڑتا ہے‘لیکن ایسے بھی جیدار ہیں جو تیس سالوں سے شوگر کے ہوتے ہوئے میٹھی چیز کو ہاتھ لگانا تو کجا دیکھتے تک نہیں ہیں‘پھر ایسے بھی لوگ دیکھے ہیں جن کو گوشت کھانا بچپن سے پسند نہیں ہے‘ گوشت کے سالن کی پلیٹ میں سے بوٹیاں ایک طرف کرتے جائیں گے‘ پشتو میں کہتے ہیں کراری پکی ہوئی دال سے جلا ہوا گوشت بھی اچھا ہوتا ہے‘حیران ہوں کہ بعض لوگ گوشت کو پسند نہیں کرتے‘بچے اور نوجوان تو پتھر لکڑ کھائیں ہضم ہو جاتا ہے‘پھر اس کے بعد اور کی تمنا ہوتی ہے‘مگر ہماری عمر کے لوگوں کے کھانے ہضم نہیں ہوتے‘اب آپ اس سے ہماری عمر کاغلط اندازہ مت لگائیں‘ ابھی ہماری عمر ہی کیا ہے‘اپنی پرانی جوانی کی تصویریں دیکھتے ہیں تو دل سے آواز ابھرتی ہے کہ ابھی تو میں جوان ہوں‘ لوگ جھوٹ تھوڑا ہی کہتے ہیں‘ابھی ہم نے دیکھا ہی کیا جب ہم کسی کھانے سے انکار کرتے تو والد کہتے ہم بھی تمہاری طرح انکار کرتے تھے‘اب موجودہ زمانے میں ہم اپنی اولاد کو یہی کچھ کہتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ کھانے سے انکار کا اندازہ کسی کو دیکھ کر ہی لگایا جا سکتا ہے اور یہ اندازہ بھی لگایا جاسکتا ہے کہ کس کی زندگی کھانے کے اقرار میں گزری ہے۔