غزہ کی طویل ناکہ بندی کے اثرات

اسرائیل کی جانب سے فلسطین میں غزہ کی بری، فضائی اور بحری ناکہ بندی پچھلے پندرہ سال سے جاری ہے جس نے غزہ کے 365 مربع کلومیٹر کے رقبے میں موجود بیس لاکھ سے زیادہ آبادی کی زندگی اجیرن اور معیشت تباہ کردی ہے مگر عالمی طاقتوں کے اغماض کے باعث اسرائیل کا ظلم رکنے کا نام نہیں لے رہا۔یہ ناکہ بندی 2007 میں شروع ہوئی جب حماس نے انتخابات جیت کر غزہ کا کنٹرول سنبھال لیا‘کہانی کچھ یوں ہے کہ 2006میں امریکہ نے غزہ کے لوگوں کو قانون ساز کونسل کیلئے اپنے نمائندے چننے کا موقع دیا۔ غزہ کے لوگوں نے حماس کے امیدوار منتخب کیے جو امریکہ اور اسرائیل کو منظور نہ تھے‘ چناں چہ اس انتخاب پر بطور سزا اسرائیل نے امریکہ کی آشیرباد سے غزہ کی ناکہ بندی کردی۔اس ناکہ بندی نے لوگوں اور اشیا ء کی آمد ورفت کو سخت محدود اور متاثر کیا ہے اور تقریبا ًستر فیصد آبادی کو غذائی عدم تحفظ کا سامنا ہے۔ اور بالخصوص بچوں، جو غزہ کی آبادی کا 47 فیصد ہیں، کو شدید متاثر کیا ہے۔ بچوں کی بین الاقوامی تنظیم سیو دی چلڈرن کے مطابق اس ناکہ بندی، مسلسل جنگی کاروائیوں اور کورونا وائرس کی وجہ سے آٹھ لاکھ یا اسی فیصد بچے مایوسی، غم اور خوف کے شکار ہیں‘ تنظیم کی 2018 والی رپورٹ کے بعد بچوں، جوانوں اور ان کا خیال رکھنے والوں کی ذہنی حالت تب سے ابتر ہوچکی ہے۔ تنظیم کے مطابق ان محرومیوں اور پریشانیوں کا اثر لازمی طور پر آئندہ بچوں کی نشوونما، تعلم اور سماجی تعامل پر پڑے گا۔
 سیو دی چلڈرن نے اسرائیل پر زور دیا کہ وہ فلسطینی بچوں اور خاندانوں کو باعزت اور محفوظ زندگی گزارنے دے، ناکہ بندی اٹھائے اور فلسطینی علاقوں پر اپنا تسلط ختم کرے اور ساتھ ہی کہا کہ ہم تمام اطراف سے استدعا کرتے ہیں کہ مسئلے کی بنیادی اسباب ختم کریں، سب بچوں اور خاندانوں کی حفاظت کیلئے تمام درکار اقدامات اٹھائے‘ اس تنازعہ اور معاشی محرومی کے فوری سدباب کی ضرورت ہے‘اس طویل ناکہ بندی اور پابندیوں کی وجہ سے غزہ میں اسی فیصد کارخانے بند ہیں اور تقریبا ًتین لاکھ صنعتی کارکن ناکہ بندی کے بعد سے بے روزگار ہیں. بے روزگاری کی شرح 45 فیصد ہوگئی ہے جو دنیا میں بلند ترین ہے۔ کارخانے پہلے چوبیس گھنٹے چلتے تھے مگر اب مہینے میں صرف تین دن کھلے رہتے ہیں۔ پابندیوں کی وجہ سے ان کیلئے خام مواد اور سامان منگوانا بہت بڑا مسئلہ ہے۔ اسرائیل سے خام مال اور سامان منگوانے کیلئے اجازت حاصل کرنا اور پھر انہیں منگوانے پر بہت وقت لگتا ہے۔ 
بجلی بھی اکثر بند رہتی ہے جس کی وجہ سے کارخانے جنریٹرز سے چلانے پڑتے ہیں اور یوں پیداواری خرچہ بڑھ جاتا ہے۔ جنگ کی تباہی کاری کی وجہ سے تعمیر و مرمت پر خرچہ زیادہ ہوتا ہے۔اس ناکہ بندی نے غزہ کی معیشت کو جتنا اور جیسا نقصان دیا ہے اس کا اندازہ 2021 کی عالمی بینک کی ایک رپورٹ سے ہوجاتا ہے۔ اس کے مطابق غزہ تیس سال پہلے تک فلسطین کی پوری معیشت میں پچاس فیصد حصہ رکھتا تھا مگر اب اٹھارہ فیصد حصے کا مالک ہے۔ تنظیم کے مطابق ناکہ بندی سے 2021میں غزہ کی معیشت کو بلا واسطہ اور بالواسطہ دو ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ چنانچہ فلسطینی بیرونی امداد اور نقد ترسیلات کے محتاج اور منتظر رہتے ہیں۔چنانچہ سب سے پہلے عالمی برادری اسرائیل کو ناکہ بندی اٹھانے پر مجبور کردے اور پھر سب ممالک فلسطینی عوام کی مشکلات کم کرنے کیلئے دل کھول کر عطیات بھیج دیں۔سابق امریکی صدر جمی کارٹر نے 2009 میں غزہ کے باشندوں کے بارے میں کہا غزہ کے باشندوں سے انسان کے بجائے جانوروں جیسا سلوک جاری ہے۔ تاریخ میں کبھی اتنی بڑی آبادی کو بموں اور میزائل سے ان جیسا تباہ نہیں کیا گیا۔
 یاد رہے اسرائیل نے ناکہ بندی کے بعد سے کئی بار غزہ پر عسکری کاروائیاں کیں جن میں 2009میں 23 دن، 2012میں 8دن، 2014میں 50 دن اور 2021میں 11دن حملے جاری رہے‘ اسرائیل اگرچہ 2005میں غزہ سے فوج نکال چکا ہے مگر اب بھی غزہ کو آمد و رفت کے بری، بحری اور فضائی راستے، غزہ کی آبادی کی رجسٹری، مواصلات نیٹ ورکس اور دوسری چیزیں اس کے کنٹرول میں ہیں۔غزہ میں سات سرحدی راستے ہیں جن سے بیرونی دنیا سے اس کا رابطہ رہتا ہے۔ اب ان میں سے صرف تین راستے کھلے ہیں جن میں دو لوگوں اور ایک اشیاء کی ترسیل کیلئے مختص ہے۔ لوگوں کیلئے مختص ایک راستہ اسرائیل اور دوسرا مصر کے کنٹرول میں ہے۔ مگر ان کے بارے میں بھی معلوم نہیں ہوتا کہ کب اسرائیلی انتظامیہ انہیں بند کرے اور اکثر یہ کئی کئی دنوں تک بند بھی رہتے ہیں۔
ان پابندیوں اور ناکہ بندی کی وجہ سے غزہ کو کھلا قید خانہ کہا جاتا ہے‘2011میں اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق ناکہ بندی بین الاقوامی انسانی حقوق اور بین الاقوامی قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزی اور اجتماعی سزا کے مترادف ہے‘اسرائیل بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فلسطینی علاقوں پر قابض ہے، فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کا مرتکب ہے، وہاں یہودیوں کی غیر قانونی آبادکاری کررہا ہے اور اس قبضے اور بے دخلی کی مزاحمت کرنیوالے فلسطینیوں کا اندھادھند قتل عام کررہا ہے لیکن اسے کوئی روکنے والا نہیں‘ عالمی برادری کو چاہئے کہ اسرائیل سے فلسطینیوں پر ظلم وستم اور ان کی زمینیں ہتھیانے کا سلسلہ ختم کروائے، تمام مقبوضہ فلسطینی علاقے خالی کروائے اور ریاست فلسطین کو تسلیم کروائے‘دو ریاستی حل، انصاف اور پرامن بقائے باہمی ہی امن کے حصول کا واحد راستہ ہے۔