ادویات قلت

خام مال کی درآمد پر سترہ فیصد ’جنرل سیلز ٹیکس (GST)‘ عائد کرنے سے ادویات سازی کی صنعت بھی متاثر ہوئی ہے اور کئی کمپنیوں نے اپنی پیداوار کم کر دی ہے تاکہ وہ خام مال کی قیمت میں اضافے اور جی ایس ٹی کی وجہ سے ہونے والے اضافی اخراجات کو پورا کر سکیں لیکن اِس کاروباری حکمت عملی کا منفی اثر ادویات کی قلت کی صورت سامنے آیا ہے اور مارکیٹ جائزے و اطلاعات کے مطابق ملک بھر میں ادویات کم سے کم چالیس جان بچانے والی ادویات ایسی ہیں جن کی قلت ہے اور اِس قلت کی وجہ سے ’بلیک مارکیٹ‘ میں ادویات کی قیمتیں سوفیصد سے بھی زائد پر فروخت ہو رہی ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ جب ہم کسی دوا کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ یہ ”جان بچانے والی (لائف سیونگ)“ ہے تو اِس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ مریض کے لئے اُس دوا کو لینا‘ کھانے پینے یا سانس لینے جیسا ضروری ہوتا ہے۔ ادویات کی کمی کو مدنظر رکھتے ہوئے جب وفاقی حکومت نے خام مال کی درآمد پر سترہ فیصد ’جی ایس ٹی‘ کم کرکے ایک فیصد کرنے کا اعلان کیا تو اِس اعلان کے بھی خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے اور مذکورہ چالیس انتہائی ضروری اور زندگی بچانے والی ادویات کی قلت برقرار ہے جس کی وجہ سے بہت سے مریضوں کی زندگیاں خطرے میں پڑ گئی ہیں!
فارماسیوٹیکل مینوفیکچرنگ انڈسٹری نے حکومت کو ادویات کی پیداواری لاگت میں کئی گنا اضافے کے بارے میں پہلے ہی خبردار کر دیا تھا جس کی وجہ سے اسے سترہ فیصد ایڈوانس ٹیکس کے نفاذ کی وجہ سے خام مال کی درآمد روکنے پر مجبور ہونا پڑا تھا۔ پاکستان فارماسیوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (پی پی ایم اے) کا مؤقف ہے کہ ”سٹاک میں موجود خام مال پہلے ہی استعمال کیا جا چکا ہے جس کے نتیجے میں لازمی طور پر مارکیٹ میں ادویات کی قلت پیدا ہوئی ہے۔ ایک جائزے کے مطابق ”زندگی بچانے والی کم از کم چالیس ادویات بمشکل دستیاب ہیں۔ ان دواؤں میں ڈپریشن کے لئے استعمال ہونے والی الپ ٹیبلٹ‘ دمہ‘ کینسر‘ مرگی‘ جوڑوں کے درد کے لئے ڈیکسمیتھاسون‘ مرگی کے لئے ایپی وال ٹیب‘ ڈپریشن کے لئے نیروین‘ ایپی وال شربت‘ فیکسٹ ڈی‘ نائٹرونل‘ وینٹولین گولیاں اور انجکشن شامل ہیں۔ مزید برآں‘ ایپیوال ان‘ مائیرن پی‘ کیتاسول انج‘ لوپرین‘ سللیور ٹیب‘ فینرجن الیکسیر‘ ٹیکسیالیکس لنیسٹیلوس‘ چلوریپٹکس ڈراپس‘ سیسٹائن ڈراپ‘ ریوٹرل ڈراپ‘ ڈورمیکم ٹیبلٹس‘ ونسٹر‘ ٹریٹس‘ سوڈامنٹ‘ شازوبوٹل‘ جارڈیمیٹ اور بروفین کی قلت کی بھی اطلاعات ہیں۔
 پشاور کے چوک ناصر خان سے شعبہ چوک تک پھیلی میڈیسن مارکیٹ کا عمومی منظر یہ ہے کہ دوا کی تلاش میں لوگ ایک دکان سے دوسری دکان تک دوڑتے اور مایوس ہوتے دکھائی دیتے ہیں جن کا کوئی مددگار اور کوئی فریاد سننے والا نہیں ہے!حکومت اور دوا سازی صنعت کے درمیان رابطوں اور ایک دوسرے کے مؤقف کو سمجھنے میں تعطل پایا جاتا ہے۔ ادویہ ساز اداروں کا مطالبہ ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات اور بجلی و گیس کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کے بعد ادویات کی قیمتوں میں 20 سے 25 فیصد اضافے کی اجازت دی جائے کیونکہ ادویہ ساز صنعتوں کے پیداواری اخراجات بڑھ گئے ہیں اور اگر حکومت یہ مشکل فیصلہ بھی کر لے تو صارفین کے حق میں بہتر ہوگا کہ اُنہیں کم سے کم ادویات خریدنے کیلئے در در کی ٹھوکریں تو نہیں کھانی پڑیں گی اور اُنہیں فی الوقت بیس سے پچیس فیصد نہیں بلکہ 100فیصد سے زیادہ اضافی قیمت کے عوض ادویات خریدنا پڑ رہی ہیں! کیا اِس مسئلے کا کوئی مستقل حل نہیں۔