قابل توجہ باتیں 

وفاقی کابینہ کا یہ فیصلہ تو ملکی تجارت کے فروغ کیلئے قابل ستائش ہے کہ افغانستان کے ٹرانسپورٹرز کو پاکستان میں تجارتی مال اسباب لانے کیلئے ملٹی پل ویزے کی سہولت دے دی گئی ہے پر جب دوسری طرف ہم یہ دیکھتے ہیں کہ وطن عزیز کے اندر خصوصا سابقہ فاٹا میں  جو بد امنی کے واقعات سامنے آجاتے ہیں تو ان کے تانے بانے سرحد پار سے جا ملتے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ طالبان حکومت نے بارہا کہا ہے کہ  افغانستان کی سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہیں ہوگی مگر زمینی حقائق سے تو یہی ظاہر ہے کہ اب بھی وہاں سے کچھ عناصر بدامنی پھیلانے کیلئے سرحد پار کرتے ہیں۔ہم کیوں اس قسم کا فول پروف نظام مرتب نہیں کرتے کہ جو انگلستان اور دیگر مغربی ممالک نے اپنے ہاں غیر ملکیوں کے آ نے جانے پر لگا رکھا ہے پاکستان غالباً دنیا کا واحد ملک ہے کہ جس میں جس کا دل چاہے منہ اٹھائے چلا آتاہے، تجارت کیلئے آنے جانے کی سہولیات فراہم کرنا احسن قدم ہے تاہم ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ  ایسا فول پروف سسٹم  بنایا جائے یہ جاننے کے واسطے کہ جو افغانی پاکستان میں داخل ہوا ہے وہ واپس بھی گیاہے یا اس ملک کے اندر کہیں غائب ہو گیا ہے۔
اب آتے ہیں کچھ اہم خبروں کی طرف ان میں سے ایک اچھی خبر ہے تو ساتھ دوسری تشویشناک خبر بھی ہے۔ اچھی خبر تو یہ ہے کہ حکومت نے ملک کے تیل کے شعبے سے روس سے خام تیل کی درآمد کیلئے تجاویز طلب کی ہیں۔پاکستان کی وزارتِ توانائی کی جانب سے ملک میں کام کرنے والی ریفائنریوں کو لکھے گئے ایک خط میں کہا گیا ہے کہ وہ حکومت کو روس سے خام تیل کی درآمد کیلئے تجاویز دیں۔وزارت کی جانب سے کہا گیا ہے کہ وہ اس سلسلے میں قابلِ عمل تجاویز فراہم کریں۔پاکستان اس وقت عالمی مارکیٹ میں تیل کی بڑھتی قیمتوں کی وجہ سے مالی مشکلات کا شکار ہے اور اسے اس کا بوجھ مقامی صارفین کو منتقل کرنا پڑا، دوسری خبر یہ ہے کہ پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 15 ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا۔یہ گذشتہ مالی سال کے گیارہ مہینوں کے مقابلے میں 131 فیصد زیادہ ہے۔
 سٹیٹ بینک کے مطابق گزشتہ مالی سال کے ان مہینوں میں ملک کا کرنٹ اکانٹ خسارہ ایک اعشاریہ دو ارب ڈالر تھا تاہم موجودہ مالی سال کے آغاز سے ہی اس میں اضافہ ہونا شروع ہو گیا جو گیارہ مہینوں میں 15.2 ارب ڈالر تک پہنچ گیا۔ملک کے بڑھتے ہوئے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کی وجہ درآمدات کا بڑھتا ہوا بل ہے جس کی وجہ تیل، گیس اور اجناس کی عالمی مارکیٹ میں ریکارڈ قیمتیں ہیں اور ملک کو مقامی ضرورت پورا کرنے کیلئے ان اشیاء کی درآمد پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔تجزیہ کاروں کے مطابق کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کی وجہ سے ملکی زرمبادلہ ذخائر بھی کم ترین سطح تک پہنچ چکے ہیں کیونکہ ملک میں برآمدات اور ترسیلات زر سے آنے والے ڈالر درآمدات کی صورت میں باہر جانے والے ڈالروں سے بہت کم ہیں۔ اس وقت ضرورت ایسے ہی اقدامات کی ہے جس طرح حکومت نے اٹھائے ہیں کہ درآمدات کا بوجھ کم کر کے ہی ہم زرمبادلہ کے ذخائر کی حفاظت کر سکتے ہیں اور برآمدات کے ذریعے ان میں اضافہ ممکن ہے اگر ہم ان دونوں اہداف پر توجہ دیں تو کوئی وجہ نہیں کہ زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ اور معاشی مشکلات میں کمی ہو۔