فردوس سینما سے چا چا یو نس پارک کی طرف جاتے ہوئے نو شو با با مسجد آئی تو توہمارے دیرینہ رفیق نے جنہیں ہم شاہ صاحب ہی کہتے گاڑی روکی ہم نے تجسس بھری نظروں سے دیکھا تو کہنے لگے نما ز یہیں پڑھتے ہیں پشاور میں تین مسا جد ایسی ہیں جن سے میری پرا نی یا دیں وابستہ ہیں ایک تا لا ب والی مسجد نمک منڈی، دوسری حاجی طورہ قل بائے والی مسجد کا بلی کی چڑ ھا ئی پر لیڈی ریڈنگ ہسپتال کیساتھ متصل ہے‘تیسری نوشو با با کی مسجد، ہم نے کہا کیا مہابت خا ن کی مسجد اور قاسم علی خا ن کی مسجد تمہیں یا د نہیں آتی؟ اس نے قدرے توقف کے بعد کہا یاد بہت آتی ہیں لیکن ان سے کوئی یاد وابستہ نہیں، ہم نے سرہلایا گاڑی سے نیچے اترے تو اذان ہو رہی تھی‘ ہم مسجد میں داخل ہو رہے تھے فون کی گھنٹی بجنے لگی بیرون یکہ تو ت سے ہمارے دوست بول رہے تھے سلا م دعا کے بعد ہم نے انہیں بتا یا کہ مسجد میں داخل ہو رہے ہیں نما ز کا وقت ہے مگر وہ بات کر نے پر مصر تھے ہم نے پو چھا کیا بات ہے؟ کس لئے فو ن ملا یا وہ برابر کہے جا رہے تھے اور کیا حال چال ہے؟ کیا ہو رہا ہے؟ ہماری طرف کب چکر لگا ؤ گے؟ میں کمبل سے جا ن چھڑا نا چاہتا تھا مگر کمبل مجھے نہیں چھوڑ رہا ہے میں نے کہا مسجد میں جماعت کا وقت ہوا، وہ بولے نما ز کے بعد گپ شپ ہو گی، میں سمجھا کہ مصیبت سے جا ن چھوٹ گئی لیکن یہ میری خا م خیا لی تھی۔
10منٹ بعد دوبارہ فو ن آیا، وہی دوست تھے میں نے پو چھا آپ نے کس لئے دوبارہ فو ن کیا؟ وہ کہنے لگے یار! گپ شپ کے لئے! آدھ گھنٹہ بولتا رہا‘ باربار کہہ رہا تھا پرواہ مت کرو میرے پا س پیکیج ہے‘خدا جا نے یہ مغز کھپا نے کا پیکیج اس نیک بخت کو کس نے دیا ہے! یہ بات میں شاہ صاحب کو بتا ئی کہنے لگے شکر ہے آدھہ گھنٹے میں تیری جان چھوٹ گئی‘ یہ صاحب مجھے فو ن کر تے ہیں تو ایک گھنٹے سے کم میں مجھے معا فی نہیں دیتے‘مو سم کے حال سے سیا ست کے کو چے کا رخ کر تے ہیں پھر مہنگا ئی کا ذکر اور بازار کے احوال جو سناتے ہیں تو میں حیراں ہو تا ہوں کہ پیکیج کمپنی کا ہے دماغ میرا ہے تم کمپنی کا پیکیج لیکر میرا مغز کیوں کھپا تے ہو؟ کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ موبائل سیٹ ہاتھ آئے ہوئے 30برس بیت گئے۔
ہم لو گ بات کرنے کا سلیقہ کب سیکھیں گے؟ سلا م دعا کے بعد مطلب کی دو باتیں پھر فو ن بند کر وگے تو اس میں ڈیڑھ سے دو منٹ لگیں گے اس سے زیا دہ گپ شپ کی کیا ضرورت ہے؟ اگر تمہا رے پا س فالتو دما غ، فالتو وقت اور فالتو پیکیج ہے تو دوسرے بندے کے پاس اس قسم کی فالتو سہو لتیں نہیں ہو نگی شاہ صاحب کہتے ہیں مجھے بھا نہ ماڑی کے دن یا د آتے ہیں جب ہم گلو کا کا کے پا س بیٹھتے تھے اور گلو کاکا سے انگریزوں‘ ہندوؤں اور سکھوں کے زما نے کی باتیں سنتے تھے، مو صو ف گپ شپ کے ما ہرین میں سے تھے اپنی عمر گزار چکے تھے ہمارا وقت ضا ئع کرنے کیلئے بے تکا ن بولتے جا تے تھے قصہ خوا نی میں مسلما نوں کے جلو س پر فرنگی سر کار کے سپاہیوں کی فائرنگ ان کے سامنے ہوئی تھی خیر سے فائرنگ کی زد میں آنے کے باو جو د مر نے سے بچ گئے تھے۔
کچھ دوستوں کا خیال تھا کہ یہ شخص چلتا پھر تا سکول ہے، تاریخ کی کتاب سے زیا دہ معلو مات رکھتا ہے ان کی صحبت میں بیٹھنے سے فلم دیکھنے یا ڈرامہ سننے کے برابر مزہ آتا ہے، ایک دن میں نے پو چھا گلو کا کا کی باتوں میں صداقت کتنی ہو تی ہے رنگ آمیزی کتنی ہو تی ہے؟ بھا نہ ما ڑی کے بانکے نو جوانوں کو اس بات سے کوئی غر ض نہیں تھی‘ ان کا شوق یہ تھا کہ گپ شپ ہوتی ہے، گپ شپ کا لطف آتا ہے، سوچتا ہوں تو عجیب لگتا ہے اس مصروف دور میں گپ شپ کی کوئی اہمیت نہیں آج بھی اگر کسی کو گپ شپ کا چسکا ہے تو وہ اپنا اور دوسروں کا سر اسر نقصان کر رہا ہے جا پا ن میں ایک ایک سیکنڈ کا حساب ہو تا ہے ہم ما ہ و سال گپ شپ میں ضا ئع کر تے ہیں۔