وہ کون سا ملک ہے جہاں دروازے تو ہوں مگر ان کو تالے نہ لگتے ہوں۔ ابنِ انشاء نے اپنے ایک سفر نامہ میں چین کے ملک کی خوبصورت روداد لکھی ہے۔ لگ بھگ نصف صدی سے زیادہ کا عرصہ بیت چکا ہے۔ اب جانے وہاں کیا صورتِ حال ہے۔لیکن یہ بھی ایک آئیڈیل نقشہ ہے جو پیش کیا ہے۔اسی سے یاد آیا کہ جب ہمارے وزیرِ خزانہ غلام اسحاق خان تھے تو اس وقت ایک میٹنگ میں چین کو قرضہ دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔مگر اب تو وقت کے گذرنے کے ساتھ صورت احوال الٹی ہی ہو گئی ہے۔ ہر مرض کی دوا قرض کو سمجھا گیا ہے اورظاہر ہے کہ اگر قرضوں کی رقم ڈالر کے اوپر جانے سے زیادہ ہو جاتی ہے او راس کی قسط کی رقم بھی بڑھ جاتی ہے۔ جس کا سارا خمیازہ ہم عوام نے بھگتنا ہے۔قرضہ لیتا کون ہے۔مگر دیتا کون ہے۔خیر یہ سوال تو اتنے مشکل بھی نہیں۔مگر جب قرضہ لینا ہوتا ہے توحکومت نہیں بلکہ ملک کے کھاتے میں ملتاہے۔ باہر تو یہی کہا جاتا ہے کہ ہم پاکستان کو قرضہ دے رہے ہیں۔اب ان کو اس سے کیا کہ پاکستان میں کس کی حکومت ہے اور پاکستان میں کس نے اس قرضہ کی واپسی کرنا ہوگی۔ کیونکہ جتنے بھی قرضے ہیں وہ سب عوام کے کھاتے میں ملتے ہیں اور ظاہر ہے کہ جب عوام کو دیا تو عوام ہی اس کے ذمہ دار ہیں کہ وہ قرضہ بہ احسن لوٹائیں۔
قرضہ ڈالروں میں لیا تو ڈالروں میں واپس کرنا ہے۔اس بات کو کسی نے نہیں دیکھنا کہ ڈالر کی اڑان کہاں تک ہے۔چونکہ عالمی مارکیٹ میں کاروبار کالین دین ڈالر میں ہوتا ہے۔اس لئے ہم نے جتنے ڈالر لئے اتنے ڈالر واپس کرنا ہوں۔اس پر مارک اپ الگ ہوگا پھر ڈالر مہنگا ہوتا ہے تو یہ اضافی عذاب ہے جو ہم نے سہنا ہے۔اپنے پاس سے مفت کی رقم ساتھ پروکر دینا ہوگی۔ جس کا تعین پہلے سے نہ تھا۔حکومتوں کا کیا ہے آج میری کل تمھاری حکومت ہوگی۔لہٰذا قرضوں کی رقوم کی ادائیگی میں اگر کسی پر بوجھ پڑتا ہے تو وہ خود بخود عوام ہی پر پڑتا ہے۔اس بات کو عوام میں سے اکثر نہیں جانتے کہ ہم پر قرضوں کا بوجھ کیوں زیادہ ہو رہاہے۔آپ نے مثلاً سو ڈالر لئے تو جواب میں سو ڈالر ہی واپس کرنا ہیں۔مگر ساتھ اضافی مارک اپ جوفرض کریں دس ڈالر ہے۔وہ بھی دینا ہے۔لیکن اب اس کا تو کوئی علاج نہیں کہ اگر ڈالر روز بروز مہنگا ہو رہاہے۔ جتنا مہنگا ہوتا جائے گا ہم پر ایک سوبیس ڈالر کے بجائے ایک سو تیس اور اگلے روز ایک سو چالیس اور اسی طرح بڑھتے جائیں اور قرضوں کی رقم کے زیادہ ہوجانے سے وہ قرضہ ناقابلِ ادائیگی ہو تا جاتا ہے۔کیونکہ ہم نے ڈالر خرید کر ڈالروں کی صورت میں رقم واپس کرنا ہے۔
ڈالر مہنگا ہوتا جائے گا اور ہماری جیب سے زیادہ سے زیادہ رقم روز نکلتی جائے گی۔جس کا ہم کو پہلے سے اندازہ نہیں تھا۔ چونکہ قرضہ جات پاکستان کے عوام کے نام پر اشو ہوتے ہیں تو ظاہر ہے کہ ہمارے عوام نے قرضوں کا بوجھ اپنے اوپر سہنا ہے۔عوام نے مہنگائی کو اپنا کر وہ قرضے واپس کرنا ہوں گے۔ اور جو قرضہ دیتے ہیں وہ واپسی کا طریقہ بھی ساتھ بتا دیتے ہیں کہ سب سے پہلے پٹرول مہنگا کرو پھر بجلی ہر پندرہ دن کے بعد حکمت ِ عملی بدل بدل کر گراں کرو۔چونکہ یہ دو اشیاء ہر آدمی کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں سو اس پر سے آپ کو گرانی کی صورت میں اتنی رقم بچ جائے گی کہ نہ صرف آپ اپنا خرچہ چلا سکیں گے بلکہ ہماری قسط بھی ادا کرسکیں گے۔ اب پٹرول کا تعلق تو براہِ راست عوام سے ہے او ربجلی بھی ہر بندہ استعمال کرتا ہے۔پھر اگر کوئی براہ راست پٹرول استعمال نہیں کرتاتو دوسری طرح وہ پٹرول کی گرانی کو سہنے میں حصہ دار بن جاتا ہے۔کیونکہ اس نے کھانا پینا تو ہے سبزی وغیرہ سودا سلف لینا ہے۔
جو سب کچھ پٹرول والی گاڑیوں میں لد کر آتا ہے۔شہر کی منی بس میں تو بیٹھنا ہے جو پٹرول سے چلتی ہے۔اس لئے گرانی سے ہر آدمی کا متاثر ہونا درست ہے۔اب سنا ہے کہ پٹرول اور بھی گراں ہونے جا رہا ہے۔بقول شاعر ”دل کے افسانے نگاہوں کی زباں تک پہنچے۔بات چل نکلی ہے اب دیکھیں کہاں تک پہنچے“۔ دیکھا جائے تو یہ مہنگائی دراصل قرضوں کی رقوم واپس کرنے ان کی اقساط ادا کرنے کے لئے ایک حکمتِ عملی ہے۔اگر ہم نے قرضہ جات نہیں لئے ہوتے تو ہمارے ہاں گرانی بھی نہ ہوتی۔اور یہ تو مانی ہوئی بات ہے کہ قرض سے مزے نہیں کئے جا سکتے کیونکہ قرض کی واپسی یقینی ہوتی ہے اور ایسے میں لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں اور پھر جب عالمی مالیاتی اداروں کی ہو تو بھلا کیسے محض لٹانے کے لئے قرضہ دیں گے وہ تو اسے سود سمیت وصول کر کے رہیں گے۔