پاکستان کو درپیش مالیاتی بحران ٹال دیا گیا ہے لیکن نجات دہندہ نے خبر دی ہے کہ ”بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی سخت شرائط پر پورا اُترنے کی کوشش میں مہنگائی کی شرح مزید بڑھے گی۔“ کیا واقعی پاکستان مالیاتی بحران سے دوچار تھا؟ کیا واقعی مالیاتی بحران ٹال دیا گیا ہے اِس سلسلے میں دو مشاہدات توجہ طلب ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ سری لنکا کی معیشت کے دیوالیہ پن یا اِس سے مماثلت کے دعوے مناسب نہیں کیونکہ پاکستان کی معیشت سری لنکا کی معیشت سے تین گنا زیادہ بڑی ہے اور پاکستان دنیا کی بڑی معیشتوں سے زیادہ بہتر انداز میں مالیاتی مسائل حل کرنے کی تاریخ رکھتا ہے جیسا کہ کورونا وبا اور جیسا کہ روس یوکرائن جنگ کے عالمی معیشت پر اثرات۔ سری لنکا کی آمدنی کا انحصار سیاحت پر تھا جس سے اُسے سالانہ قریباً ساڑھے چار ارب ڈالر حاصل ہوتے تھے اور سال دوہزاراٹھارہ میں سیاحت سے ہونے والی آمدنی اُس کی مجموعی خام پیداوار (جی ڈی پی) کا پانچ اعشاریہ چھ فیصد تھی لیکن جب 2020ء میں کورونا وبا کی وجہ سے سیاحت کا شعبہ جامد ہوا تو سری لنکا کی جی ڈی پی صفر اعشاریہ آٹھ فیصد یعنی ایک فیصد سے بھی کم رہ گئی۔ اس کے نتیجے میں جنوری 2022ء میں سری لنکا کے پاس 2.8 ارب ڈالر کے ذخائر تھے جن میں سے ایک ارب ڈالر سے بھی کم قابل استعمال ذخائر تھے اور اِس کے نتیجے میں ملک کو 2022ء میں قرض اور جی ڈی پی کے تناسب کو بڑھا کر 115فیصد کرنا پڑا جو 2023ء میں مزید بڑھ کر 120فیصد ہونے کا امکان ہے۔پاکستان کے قرضہ جات 2017-18ء میں ساڑھے سولہ کھرب روپے جبکہ 2018-19ء میں اٹھائیس کھرب روپے تک جا پہنچے لیکن چونکہ پاکستان کے دوست ممالک بالخصوص چین ہر مشکل کے وقت کام آتا ہے اور اِس مرتبہ بھی چین نے 2.3 ارب ڈالر دیئے اور ’آئی ایم ایف‘ سے قرض ملنے کے بعد سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات بھی قرض دیں گے جبکہ فرانس نے چھ سال کے لئے واجب الادا ادائیگی موخر کردی ہے تو اِن سبھی اقدامات سے پاکستانی خرانے پر دباؤ وقتی طور پر کم ہوا ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ آئی ایم ایف کے قرض یا دوست ممالک کی مہربانیوں سے اقتصادی بحران ختم نہیں ہوا کیونکہ پاکستان اپنی آمدنی سے زیادہ اخراجات کا عادی ملک ہے ’ون ٹائم‘ سپر ٹیکس کے نفاذ سے قریب 450ارب روپے آمدنی متوقع ہے جس کی بااثر طبقات نے اول مخالفت اور بعدازاں حمایت کردی۔ اِسی طرح انتہائی امرأ پر چار فیصد انسداد غربت ٹیکس اور غیر منقولہ غیر متحرک جائیداد کی قیمت کے تناسب سے ایک فیصد ٹیکس اُور غیر منقولہ جائیداد سے آمدنی پر ٹیکس لگایا گیا ہے چونکہ زمین ایک صوبائی معاملہ (سبجیکٹ) ہے اِس لئے وفاقی حکومت کی جانب سے عائد کئے جانے والے یہ ٹیکسیز عدالت میں چیلنج ہو سکتے ہیں۔ یہ بات اہم ہے کہ مالیاتی بل میں اگلے مالی سال قریباً پانچ فیصد ’جی ڈی پی‘ شرح نمو حاصل ہو گی جس سے اضافی آمدنی حاصل ہوگی لیکن چونکہ کاروباری سرگرمیاں محدود ہیں اِس لئے حکومت کو متوقع شرح سے ٹیکسیز وصول ہونے کا امکان بھی کم ہے۔ اگر آئی ایم ایف کا ساتواں جائزہ کامیاب ہوتا ہے جس کے تحت پیٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمت میں اضافہ کیا جائے گا تو سات جولائی کو ہونے والے مالیاتی پالیسی کمیٹی کے آئندہ اجلاس سے قبل مہنگائی میں مزید اضافہ کیا جائے گا۔ یہ واقعی بدقسمتی ہوگی کہ قرض لینے کے لئے اُن سبھی سخت شرائط کو من و عن مان لیا جائے جو عام آدمی کے نکتہئ نظر سے ظالمانہ ہیں۔ یقینا ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت زراعت سے آمدنی پر ٹیکس لگائے۔