یاد تو آئے گی

پشاورکے پشوریوں اور لاہور کے لاہوریوں کا پرانے پشاور اور لاہور کے حوالے سے ایک ہی المیہ ہے۔عطاء الحق قاسمی صاحب سے وٹس ایپ پر کبھی کبھی بات ہوتی ہے۔ایک موقع پر انھوں نے پشاور کی مٹتی ہوئی تہذیب پر میرے کالم کے جواب میں کہا کہ پشاور کے پشوریوں کو پرانے پشاو رکا جو دکھ ہے وہی لاہور کے سینئر شہریوں کو اپنے شہر کے بارے میں بھی ہے۔ان کی بات پر دل کو تسلی ہوئی کہ صرف ہم ہی پشاور کی تہذیب پر رونے والے نہیں۔اپنے اپنے شہر کی دلربائی کے چھن جانے کا ہر کوئی شکوہ سنج ہے۔اصل میں پشوریوں کی جتنی بھی تعداد ہے ان میں سے سینئر شہریوں کو ایک ذہنی بیماری مشترکہ حاصل ہے۔وہ یہی ہے کہ ہمارا شہر وہ نہیں رہا جو ہمارے لڑکپن کے دور میں تھا۔پھر وہ شہر جو ہمارے بچپن میں آباد تھا وہ تو سرے سے اب موجود ہی نہیں ہے۔وہ پشاورشہر کے گلی کوچوں کی بچپن کی یادیں تو بس یادیں رہ گئی ہیں۔ان کو اب کیا ڈھونڈنا۔  جو بیت گئی وہ بیت گئی۔کبھی کبھی دل میں کچوکے لگتے ہیں وہ یادیں انگڑائیاں لیتی ہیں وہ کرنیں دل کے اندھیرے گھر کو اپنی سوندھی خوشبو سے منور کر جاتی ہیں۔ پشاور تو پھر پشاور ہے نا۔بھلا اس سوہنے شہر کی کوئی یاد نہ ہوگی۔سو کیا اس شہر سے ملاقات نہ ہوگی۔جو دور ہیں وہ پشاو رکے پھیرے لگاتے ہیں۔ اس سولہ دروازوں والے شہر کے جو کبھی مغلیہ حاکم پشاور نواب ناصر خان کا دارالحکومت تھا۔ جہاں کے گلی کوچوں کی دیواروں کی وہ پرانی اینٹیں جن کے پیچھے یادوں کی ایک دنیا بند ہے بعض مقامات پر برسوں بیت گئے فصیل شہر کے نام پر اب بھی موجودہیں۔ ہر چند اس فصیل کو شہریوں نے اپنا مقصد حل کرنے کے لئے توڑا مگر یہ پھر بھی چند ٹکڑوں کی صورت میں اب بھی موجود ہے۔لاہوری دروازے سے ہوکر آپ اگر گنج دروازے کے باہر رک جائیں تو آپ کو اس پرانی فصیل کے آثار قدیمہ اور طرزِ تعمیر کے نمونے آسانی سے نظر آ سکتے ہیں۔پھر گنج سے آگے اگر دائیں کو موڑ کاٹ لیں تو دائیں ہاتھ پھر بھی وہ دیوار چپکے سے آنسو بہاتی ہوئی دکھائی پڑ جاتی ہے۔پھر گنج ٹیڈی دروازے کے آگے سے گذر کر یکہ توت دروازے کے باہر پہنچ جائیں تو یہاں بھی یہی دیوار شہریوں کے گھرو ں پر سایہ کئے ہوئے ہے۔پھر اگر نیچے اُتر جائیں توکوہاٹی دروازے سے پہلے ٹیڈی دروازہ آتا ہے کوہاٹی دروازے سے گذر جائیں تو اوپر جا کر سرکی دروازہ آتا ہے اور اس کے فوراً بعد ٹیڈی دروازہ اور اس کے بعد ٹھنڈی کھوئی کا دروازہ آ جاتا ہے۔اس کے بعد جو دروازہ آئے گا اس کو آسیہ گیٹ کہتے ہیں۔یہ دروازے سٹی سرکلر روڈ کے ساتھ ساتھ کھڑے ہیں۔جب سے ہم نے ہوش سنبھالا ہم نے باقاعدہ طور پر یہاں کوئی دروازہ نہیں دیکھا۔مگر دروازوں کا تصور تھا۔ ماضی میں کے پی حکومت کے پشوری وزیر نے یہ دروازے موجودہ حالت میں از سرِ نو تازہ کر کے کھڑے کر دیئے‘ لاہوری دروازہ سے نکلیں تو شیخ آباد گلبہار کی طرف جاتا ہوا راستہ ایک زمانے میں لاہور کی طرف سیدھا جاتاتھا۔اس لئے اس کو لاہوری گیٹ کے نام سے موسوم کر دیاگیا۔ کوہاٹی دروازہ سے نکلیں تو یہ سڑک کوہاٹ کی طرف جاتی ہے اس لئے اس کو کوہاٹی دروازہ کہتے ہیں۔پھر اس کے بعد دیگر دروازے بھی ہیں جو شہر کے چاروں اور پھیلے ہوئے ہیں۔دروازوں کے اندر کے پشاور کو پرانا پشاور کہتے ہیں۔لاہوری دروازے کے قریب ہی ہشت نگری دروازہ ہے۔ اس دروازے سے نکلیں تو اس زمانے میں دروازے کے باہر جو راستہ آگے کو جاتا وہ آٹھ شہروں کی طرف جاتا۔ اس لئے اس کو ہشت یعنی آٹھ نگر (علاقوں) والا دروازہ کہا جاتا۔ یہاں سے آگے چارسدہ مردان شبقدر اور دوسرے شہر آتے ہیں اس لئے اس کو ہشت نگر سے ہشت نگری بنا دیا گیا۔وہ دروازے اب بھی ہیں مگر اس کے نیچے سے ہو کر باہر جانے والے جو گئے تو پھر لوٹ کر چار کاندھوں پر واپس نہیں آئے۔بقول شاعر ”مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں۔جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے“۔وہ لوگ جو دروازوں کے اندر آتے جاتے وہ تو اب ڈھونڈو تو نہیں ملیں گے۔ کیا جغادری لوگ تھے مسکینو ں کی پناہ تھے ان نامی گرامی لوگوں میں اب آپ خود انصاف کریں ہمارا ذکر کون کرے گا۔ ہمارا تو کوئی پوچھنے والا ہی نہ ہوگا۔ایسے میں پشاو رکے پشوریوں کی ذہنی بیماری یعنی پرانے پشاور کی یاد ان کے ذہن سے کہاں مٹ سکتی ہے۔مگر یاد تو آتی ہے موٹی موٹی دیوارو ں کو توڑکر لوہے کے دروازے بھی ہوں تو ان کو توڑکر یاد تو آئے گی۔