ترکیہ اور نیٹو میں توسیع

ترکی نے کل بالآخر اپنی شرائط منوانے کے بعد فن لینڈ اور سویڈن کی نیٹو میں شمولیت پر مخالفت ختم کردی ہے اور اس طرح نیٹو میں توسیع کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔ترکی نے دکھا دیا کہ اگر کوئی قوم چاہے تو اپنے قومی مفاد کے فیصلے کرسکتی ہے اور دوسروں کو بھی انہیں ماننے پر مجبور کرسکتی ہے۔فن لینڈ اور سویڈن نیٹو میں شامل ہونا چاہتے تھے۔ امریکہ اور سارے یورپی ممالک ان کی پشت پر تھے مگر ترکیہ ان کے راستے میں رکاوٹ بن گیا اور ترکی کی قیادت نے ببانگ دہل کہہ دیا کہ ہم ان دونوں کی نیٹو میں رکنیت کی کوشش کے خلاف اپنا حق استرداد استعمال کریں گے۔ ترکی نیٹو میں توسیع کا ہمیشہ حامی بھی رہا ہے تاہم ترک صدر ایردوان کا فن لینڈ اور سویڈن کی شمولیت پر یہ اعتراض تھا کہ یہ دونوں کرد عسکریت پسند گروہ کردستان ورکرز پارٹی اور ان کی ذیلی تنظیموں کی حمایت کر رہے ہیں، انہیں پناہ دے رہے ہیں‘ترکی کو مطلوب دہشت گردوں کو اس کے حوالے نہیں کررہے اور انہوں نے ترکی پر چند قسم کے اسلحہ جات کی پابندیاں بھی لگائی ہوئی ہیں اور جب تک یہ ان امور کے حوالے سے ہمیں مطمئن نہیں کرتے ہم نیٹو میں ان کی شمولیت کی حمایت نہیں بلکہ مخالفت کریں گے۔ ترکی کا کہنا تھا کہ اگر یہ ممالک نیٹومیں شامل ہوگئے تو یہ اس کی اور دیگر رکن ممالک کی قومی سلامتی کے لئے خطرناک ہوگا کیوں کہ دہشت گرد تنظیموں کے خلاف ان کی پالسیی واضح اور شفاف نہیں ہے۔ترک صدر رجب طیب ایردوان کے مطابق ہم اپنے اتحادیوں سے دہشت گردی کی ہر نوعیت اور اظہار کے خلاف بلا تفریق جدوجہد کرنے اور کسی ایک نیٹو رکن کو درپیش خطرے کو اصل میں پورے نیٹو کیلئے خطرہ ماننے کی توقع رکھتے ہیں؛ اگر سویڈن اور فن لینڈ نیٹو کا رکن بننا چاہتے ہیں تو انہیں اتحاد کے 70 سالہ رکن ملک’ترکی‘کے سکیورٹی خدشات کو نگاہ میں رکھنا چاہیے۔ اس کے برعکس تصور ناممکن ہے‘نیٹو کے سیکرٹری جنرل جانز سٹولٹن برک نے کہا ہم فن لینڈ اور سویڈن کو بھی شامل کرنا چاہتے ہیں مگر ترکیہ کے خدشات بھی نظر انداز نہیں کرسکتے کیوں کہ وہ ایک اہم ملک ہے اور اس کی منظوری کے بعد ہی نیٹو میں توسیع ہوسکتی ہے۔ترکیہ کے سخت موقف کو دیکھتے ہوئے نیٹو کے سربراہ اور بڑے ممالک نے ترکی اور دونوں ملکوں کے مابین ثالثی کی کوششیں شروع کردیں۔ پہلے ان کے درمیان وزارتی سطح پر بات چیت ہوئی مگر ان سے مسئلے حل نہ ہوئے۔ کل میڈرڈ سپین میں ہونے والے نیٹو سربراہ اجلاس سے پہلے بالآخر ترکی کی مطلوبہ شرائط مان لی گئیں اور اس نے دونوں ممالک کی شمولیت پر اپنی مخالفت واپس لے لی۔ترک صدر ایردوان،فن لینڈ کے صدر ساولی نینیستو، سویڈن کے وزیراعظم ماگدالینا اینڈرسن اور نیٹو کے سیکرٹری جنرل جانز اسٹولٹن برگ کی موجودگی میں ایک مشترکہ سمجھوتے پر دستخط کئے گئے۔تینوں ممالک کے درمیان ہونے والے سمجھوتے کے تحت سویڈن اور فن لینڈ تمام دہشت گرد تنظیموں کی شرپسندانہ کاروائیوں اور مظاہروں کی مذمت کریں گے، کرد علیحدگی پسند و عسکریت پسند گروہ پی کے کے اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کی سرگرمیوں پر پابندیاں لگائیں گے، تینوں ممالک دہشتگرد تنظیموں کی سرگرمیوں کو روکنے کیلئے مشترکہ تعاون کو فروغ دیں گے‘ اس سمجھوتے کے بعد صدر ترکی نے کہہ دیا ہے کہ اسے دونوں نارڈک ممالک کے ساتھ مذاکرات سے وہ کچھ مل گیا ہے جو وہ چاہتا تھا اور اب وہ سربراہ اجلاس میں فن لینڈ اور سویڈن کو نیٹو کا رکن بننے کی دعوت کی حمایت کرے گا۔یاد رہے فن لینڈ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے اور سویڈن 200 سال سے غیر وابستگی اور غیر جانبداری کی پالیسی پر عمل پیرا تھے مگر یوکرین پر روسی حملے کے بعد اپنی سلامتی یقینی بنانے کیلئے وہ نیٹو میں شامل ہونا چاہتے ہیں‘ اس سہ فریقی سمجھوتے سے نیٹو میں کئی ہفتوں سے جاری تعطل اور اختلافات ختم ہوجائیں گے۔ اور روس کے خلاف ایک متحدہ محاذ بن سکے گا؛تربیت یافتہ اور اچھے سازوسامان سے لیس فوجیں رکھنے والے ان دونوں جمہوری ممالک کی شمولیت سے نیٹو کو یہ فائدہ ہوگا کہ بحیرہ بالٹک سے متصل نیٹو ممالک کی تعداد آٹھ ہو جائے گی اور اس طرح یہ علاقہ تقریباً نیٹو جھیل بن جائے گا‘ نارڈک ممالک کی غیر جانبداری چھوڑنا یورپی سلامتی انتظام میں کئی دہائیوں کے بعد ایک اہم تبدیلی ہے۔