بڑے لوگوں کی بڑی باتیں 

عربی کی ایک کہاوت ہے کہ رعایا اپنے بادشاہوں کے چلن اپناتی ہے‘اس بیانیہ کی وضاحت میں  ایک دو واقعات درج ذیل ہیں دوسری جنگ عظیم کے دوران ہٹلر ہر روز برطانیہ  کے وزیر اعظم ونسٹن چرچل کے خلاف نازیبا زبان استعمال کرتا جب ایک اخباری نمائندے نے ان کی توجہ ہٹلر کی ہر زہ سرائی کی طرف مبذول کرائی تو انہوں نے اس کے جواب میں ایک ہی جملہ کہا جو ہٹلر کے کئی جملوں پر بھاری تھا چرچل نے کہا ایسا لگتا ہے ہٹلر کی اچھی پرائمری ایجوکیشن نہیں ہوئی ڈاگ ہیمرشولڈ 1960ء کی دہائی میں اقوام متحدہ کے سکرٹری جنرل تھے نہایت اچھے اور پڑھے لکھے انسان تھے ایک مرتبہ سوویت یونین کے اس وقت کے حکمراں نکیتیا خروشیف جو ایک نہایت ہی منہ پھٹ  قسم  کے  انسان تھے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کر رہے تھے دوران خطاب انہوں نے اپنا پاؤں اپنے بوٹ سے نکالا اور بوٹ کو روسٹرم پر پٹخ کر ہیمر شولڈ  کو کتا کہہ دیا‘اب اگر ہیمر شولڈ چاہتے تو وہ قانونی طور پر اختیار رکھتے تھے کہ اس بد تمیزی پر  سارجنٹ ان آ رمز کو حکم دے کر اسے جنرل اسمبلی سے زبر دستی باہر نکال دیتے   پر وہ خاموشی سے یہ سب کچھ پی گئے بعد میں جب اخباری نمائندوں نے ان سے پوچھا کہ انہوں نے اس واقعہ کو نظر  کیوں کیا تو ہیمرشولڈ نے جواب دیا کہ میری تربیت شاید خوروشیف کی تربیت سے بہتر ہوئی ہے۔
 اب ذرا مندرجہ بالا دو مثالوں کو سامنے رکھ کر وطن عزیز میں سیاستدانوں کے مابین ہونے والے طرز بیان نوک اور طرز کلام پر ایک تنقیدی نگاہ ڈالیں تو آ پ کو بہ آ سانی یہ بات سمجھ میں آ جائے گی کہ ہمارے  سیاسی اکابرین کی گفتار کا معیار کتنا پست ہے اسی لئے سیانے یہ کہہ گئے ہیں کہ لوگوں کو اسمبلیوں میں وہ افراد بھیجنے چاہئیں جو ہر لحاظ  سے معاشرے کے بہترین افراد ہوں اور کافی  پڑھے لکھے بھی ہوں‘ایران نے اس ضمن میں کافی پیش رفت کی ہے  اور اب وہاں اس بات کا حتی الوسع خیال رکھا جاتا ہے کہ وہاں کی پارلیمنٹ میں صرف وہ افراد منتخب ہوں جو نیک اور صالح ہوں اور کسی اخلاقی جرم میں ملوث نہ رہے ہوں  ہم اس معاملے میں کچھوے کی چال کیوں چل رہے ہیں علامہ اقبال کا یہ شعر بار بار ھمارے ذہن میں نہ جانے کیوں آ رہا ہے کہ جمہوریت وہ طرز حکومت ہے کہ جس میں  بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے۔
 اب جبکہ عالمی امور کی بات چل ہی نکلی ہے تو لگے ہاتھوں ذرا بنگلہ دیش کا ذکر ہو جائے کہ جس نے معاشی میدان میں گزشتہ پانچ دہائیوں میں حیرت انگیز ترقی کی ہے اور اگر وہاں کی حکومتوں نے آئندہ بھی موجودہ روش جاری رکھی تو وہ ملک آئندہ دس برسوں میں دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں جا کھڑا ہوگا۔