وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی جانب سے ”فوڈ سرٹیفیکیشن پروگرام“ کے تحت شہد کی مکھیوں کی افزائش اور شہد کی فروخت کے کاروبار سے متعلق آگاہی پیدا کرنے کے لئے پشاور میں خصوصی نشست کا انعقاد اِس لحاظ سے خوش آئند ہے کہ مگس بانی جیسے شعبوں کی سرپرستی اور مالی و تکنیکی مدد کرنے سے نہ صرف باعزت و خود روزگار کے مواقع پیدا ہو سکتے ہیں بلکہ اِس سے پاکستان کی برآمدات میں بھی اضافہ کیا جا سکتا ہے جو معاشی مشکلات سے گزرتے ملک کے لئے اپنی جگہ وقت کی ضرورت ہے۔ سرحد ایوان ہائے صنعت و تجارت کے اشتراک سے مذکورہ آگاہی مہم صدر دفتر (چیمبر ہاؤس) میں منعقد ہوئی جس میں شہد کے برآمد کنندگان بھی شریک ہوئے اور اُنہوں نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا کہ مگس بانی کی سائنسی بنیادوں اور عصری تحقیق کے مطابق خاطرخواہ تربیت کا انتظام کریں تاکہ شہد کی برآمدات میں اضافہ ممکن بنایا جا سکے۔ اِس نشست کی خاص بات یہ بھی تھی کہ اِس میں نہ صرف شہد کی پیداوار پر موسمیاتی اثرات کا جائزہ لیا گیا بلکہ شہد کی درآمدات سے متعلق سعودی عرب کی جانب سے قواعد میں تبدیلی سے پیدا ہونے والی صورتحال پر بھی تبادلہئ خیال کیا گیا۔ خیبرپختونخوا سے شہد کے برآمدکنندگان کو شکایت ہے کہ اُنہیں خاطرخواہ سہولیات نہیں دی جاتیں اور اُنہیں ویزے کے حصول سے لیکر جانچ (ٹیسٹنگ) کے مراحل تک مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اِن مشکلات کو دور کرنے کے لئے سرحد چیمبر اور وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی پر زور دیا گیا کہ وہ وفاقی حکومت کے متعلقہ محکموں سے بات چیت کریں علاؤہ ازیں سعودی عرب کی جانب سے شہد کی درآمدی پالیسی میں تبدیلی کا حوالہ دیتے ہوئے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ سعودی حکام سے اِس سلسلے میں بات چیت کریں۔ ذہن نشین رہے کہ شہد کی مکھی کی اوسط عمر 2 سے 5 سال ہوتی ہے جبکہ ملکہ مکھی 7 سال تک زندہ رہ سکتی ہے جو اپنی موت سے پہلے اپنی و دیگر تین قسم کی کارکن مکھیوں کا متبادل انتظام کرتی ہے اور یوں مکھیاں ایک خودکار و منظم انداز میں رہتی ہیں جن سے حاصل ہونے والی شہد کی مقدار اور موم دونوں ہی منافع بخش اجناس ہیں۔ دنیا میں 7 اقسام کی شہد مکھیاں پائی جاتی ہیں جن میں سے پاکستان میں 3 مقامی اقسام ایپس ڈورستا‘ ایپس سرانا اور ایپس فلورا (جنگی مکھی) سے شہد حاصل ہوتا ہے اور یہ تینوں مکھیوں کی اقسام یہاں کی آب و ہوا سے مانوس ہیں۔ پاکستان میں تیار ہونے والا ’بیڑی کا شہد (Berry Honey)‘ کی مانگ اندرون و بیرون ملک ہے لیکن موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کی وجہ سے شہد کی پیداوار اور مکھیوں کی عمر و پیداواری صلاحیت متاثر ہو رہی ہے۔ 1990ء میں وسط اگست سے وسط اکتوبر (3ماہ) تک کا عرصہ (سیزن) بیڑی کے درختوں (Ziziphus Mauritiana) سے شہد حاصل کرنے کا ہوتا تھا لیکن اب اِس سیزن کا دورانیہ کم ہو کر صرف 1 ماہ رہ گیا ہے۔ بیڑی کے شہد کی پیداوار کم ہونے کے 2 بنیادی محرکات بتائے جاتے ہیں۔ پہلا محرک یہ ہے کہ بیڑی کے درختوں کی بے دریغ کٹائی کی گئی ہے اور یہ کٹائی غیرقانونی عمل ہے۔ دوسرا محرک بارشوں کے معمولات کی تبدیلی ہے۔ ماضی کے مقابلے بارشیں اوسط مقداراور مقررہ وقت کے علاؤہ ہو رہی ہیں اور اِس کی وجہ سے شہد کی پیداوار بھی متاثر ہے‘ٹریڈنگ ڈویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان کے مطابق ”پاکستان میں پیدا ہونے والا بیڑی شہد کا90 فیصد برآمد کیا جاتا ہے اور ایک وقت وہ بھی دیکھا گیا جب شہد کے فروخت و برآمد کنندگان طلب (آرڈرز) کو پورا نہیں کر سکتے تھے۔ پاکستان میں 7 ہزار رجسٹرڈ مگس بان ہیں جن کے پاس 3 لاکھ مکھیوں کی کالونیاں ہیں اور یہ سالانہ ساڑھے سات ہزار میٹرک ٹن شہد پیدا کرتے ہیں۔ خاص بات یہ ہے کہ ماضی میں مکھیوں کی اِن رجسٹرڈ کالونیوں کی تعداد 10 لاکھ سے زائد ہوا کرتی تھی۔ شہد کی مکھیوں پر موسمی اثرات کے منفی اثر کے باعث 60 فیصد تک پیداوار میں کمی آئی ہے جو غیرمعمولی ہے۔ ایک مگس بان مکھیوں کے ایک باکس سے چھ ہزار روپے تک آمدنی حاصل کر سکتا ہے لیکن اب یہ آمدنی چالیس فیصد رہ گئی ہے! شہد کا کاروبار پھیلنے کے ساتھ اِس شعبے کی جانب بھی ’آڑھتی‘ اور ’سٹے باز‘ متوجہ ہوئے جو مگس بانی کرنے والوں سے زیادہ منافع کما رہے ہیں لیکن خاطرخواہ تعلیم و معلومات کی کمی کے باعث مگس بان اپنی سرمایہ کاری اور تجربے سے خاطرخواہ فائدہ نہیں اُٹھا پا رہے۔ خیبرپختونخوا کے پہاڑی و میدانی علاقوں سے حاصل ہونے والا مختلف اقسام کا شہد اپنی تاثیر و لذت کی وجہ سے دنیا بھر میں مقبول ہے لیکن اِس کاروبار میں چھپے پیداواری امکانات سے وفاقی و صوبائی حکومتیں خاطرخواہ فائدہ نہیں اُٹھا سکی ہیں۔ سرحد چیمبر کے اراکین نے جن توجہ طلب امور کی نشاندہی اور جو مطالبات پیش کئے ہیں‘ اُمید ہے کہ اُس حوالے سے بھی متعلقہ حکومتی ادارے غوروخوض کریں گے مگس بانوں کی سرمایہ کاری محفوظ اور اُنہیں زیادہ مالی فائدہ ہو۔ جن موسمیاتی اثرات سے مگس بانی متاثر ہے‘ اُن کے نقصانات کا ازالہ شہد کی بہتر قیمت کی صورت کیا جا سکتا ہے۔