ڈپریشن اور ایسے کو تیسا

ایک سروے کے مطابق ہر پانچواں پاکستانی ڈپریشن کے مرض  مبتلاہے دراصل  انسانی دماغ میں کچھ ایسے کیمیکل ہوتے  ہیں کہ جن کے کم ہونے سے ڈپریشن شروع ہو جاتا ہے ادویات کی مدد سے ڈپریشن کو کم کیا جا سکتا ہے  اورگفتگو سے بھی۔ اس لئے اس وقت دنیا بھر میں کونسلنگ کا طریقہ وضع کیا گیا ہے ایک اندازے کے مطابق پاکستان  میں ڈپریشن کی وجہ سے روزانہ  15 سے 35 افراد  زندگی سے منہ موڑ لیتے ہیں یعنی ہر ایک گھنٹے میں ایک شخص اپنی جان لے رہا  ہے۔ ذہنی  امراض کو کم کرنے کیلئے حکومتی سطح پر ان اقدامات  اٹھانے کی ضرورت ہے کہ جن سے اس کا تدارک ہو۔ ڈپریشن کی کئی وجوہات ہیں اور اس کا شکار زیادہ تر حساس ذھن کے نوجوان ہوتے ہیں۔ معاشی بد حالی‘ معاشی عدم مساوات اور بیروزگاری کی وجہ سے جوانوں میں بے چینی پیدا ہوتی ہے اور وہ ذہنی طور پر خلفشار کا شکار ہوتے ہیں ان میں کمزور اعصاب والے لوگ ان صدموں کی تاب نہیں لا سکتے اور وہ اپنی جان لے کر ان سے راہ فرار حاصل کر لیتے ہیں اس  جملہ معترضہ کے بعد اب ذرا چند اہم قومی اور عالمی مسائل کا تذکرہو جائے ملک میں فوری الیکشن کا مطالبہ زور تو پکڑ رہا ہے پر کیا کسی نے یہ بھی سوچا ہے کہ اگر ہارنے والی پارٹی نے دھاندلی دھاندلی کی رٹ لگا دی تو پھر کیا ہو گا ابھی تک الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال بارے میں تمام سٹیک ہولڈرز کے درمیان اتفاق راے نہیں ہو سکا ہے  اور نہ ہی اس پر کھلم کھلا بحث ہوئی ہے۔
 ماہرین کی موجودگی میں پبلک کے سامنے  آخر اس کے استعمال میں قباحت کیا ہے۔ خدا لگتی یہ ہے کہ ان مسائل کے حل کئے بغیر الیکشن کے نتائج پر ہارنے والی پارٹی کے اودھم مچانے کے امکانات کو رد نہیں کیا جاسکتا اس لئے ارباب اقتدار کو الیکشن پر جانے سے پہلے مندرجہ بالا مسائل کا حل کرنا ضروری ہے ورنہ الیکشن کی ساری مشق عبث چلی جا سکتی ہے۔روسی صدر اینٹ کا جواب پتھر سے دینے میں ید طولے رکھتے ہیں جیسے کو تیسا وہ اپنے اوپر تنقید کا فوری جواب دیتے ہیں اگلے روز برطانوی وزیراعظم نے کہیں طنزیہ طورپر یہ کہہ دیا کہ اگر پوٹین عورت ہوتے تو یوکرائن پر کبھی بھی حملہ نہ کرتے جس کے فوراً بعد پوٹین نے یہ جواب دیا کہ جب برطانیہ نے فاکلینڈجزائر پر ار جنٹائن سے جنگ چھیڑی تھی تو کیا اس وقت ایک خاتون مسز تھیچر برطانیہ کی وزیراعظم نہ تھیں؟
 اب جب بات چل پڑی ہے روس کی تو اس وقت ا س نے امریکہ اور یورپ کو یوکرین کے معاملے میں تو بے بس کر دیا ہے ساتھ ہی اس نے بیلا روس میں ایٹمی ہتھیار نصب کرنے کا جو فیصلہ کیا ہے اس سے اب یورپ کو لینے کے دینے پڑ سکتے ہیں۔ کیونکہ روس نے کھل کر کہا ہے کہ وہ اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے کسی بھی حد تک جاسکتا ہے اور امریکہ سمیت نیٹو ممالک اگر اس کے گھر کے دہلیز پر آکر یوکرین میں روس کو للکارتے ہیں تو روس ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا نہیں رہے گا۔ یوکرین تو امریکہ اور نیٹو کے ورغلانے میں آکر اپنا نقصان کر بیٹھا ہے اب یورپی ممالک بھی امریکہ کیلئے اپنی سلامتی کو  اگر خطرے میں ڈالتے ہیں تو یہ دانشمندانہ فیصلہ ہر گز نہیں ہوگا۔ یوکرین پر روس کے حملے سے قبل جرمنی اور فرانس کے امریکہ سے اختلافات کھل کر سامنے آئے تھے اور یہ دو ممالک یورپ کیلئے امریکہ کی چھتری کے بغیر حفاظتی نظام کے حامی رہے ہیں تاہم امریکہ نے یوکرین پر روس کے حملے سے پیدا شدہ صورتحال سے فائدہ اٹھایا اور اب جرمنی، سمیت یورپ کے کئی ممالک ماضی کے برعکس امریکہ کے ہمنوا بن گئے ہیں  دیکھتے ہیں آنے والے وقت میں کیا نقشہ سامنے آتا ہے۔