ابھی تک تو شہر میں بڑی بڑی آنکھوں والی گائے کے پاؤں کے گھنگروؤں کی آوازیں تواتر سے نہیں آ رہیں۔یا پھر شاید عید دور ہے۔مگر قربانی کے دن کی دوری کہاں۔ یہ سامنے تو ہے عید۔ ہفتہ بھر کے بعد عید کی نوبت باجے گی۔ گھر گھر کر بادل آئیں گے۔گھنگھور گھٹائیں چھائیں گی۔ بادل چھم چھما چھم نہیں برسیں گے بلکہ کڑکتے ہوئے چمکتے ہوئے لپکتے ہوئے بجلی کے شراروں کے سنگ دھوم دھڑکے کے ساتھ برسنے کی موسمیات کی اطلاعات ہیں۔ مگر یہ کیا ہے شہر کی فضا میں عید کے قریب کے ان دنوں میں ایک سُونا پن ہے۔منڈیاں خالی پڑی ہیں۔کالا منڈی ہو یا کوئی اور منڈی جو گنج کے باہر لگتی ہے یا رنگ روڈ پر ایک سے دوسرے پڑاؤ پر اپنا رنگ جماتی ہیں۔سب سنسان و ویران ہیں۔منڈیا ں تو ہیں مگر ان میں زمین و چمن خالی ہیں۔مال کہاں ہے مال گراں ہے۔گائے بیل کی پاؤں میں بجنے والی چھن چھنا چھن تو جیسے اس وقت ملک کے کاروباری حسن کے لُٹ جانے سے چھن سی گئی ہے۔ وہ رونق جو پچھلے سال تھی وہ اب کہاں ہے۔مال کا پوچھ نہیں سکتے‘ سڑکیں سنسان ہیں یا ہمیں محسوس ہوتی ہیں۔مگر جو یہ تحریرپڑھے اس کو ثبوت حاصل کرنا ہو تو جا کرخود دیکھے۔وہ دیکھے گلیوں کوچوں میں لڑکے بالے جو اپنے جانور کو لے کر بھگاتے ہوئے لے جاتے تھے۔
پیٹھ پیچھے دور سے آنے والی گائے کے گلے میں لٹکی ہوئی جھانجر بجتی تو راہ گذرتی خواتین خوفزدہ ہو کر گھروں کے مین دروازے کی تھلیوں پر چڑھ کر کھڑی ہو جاتیں۔ وہ نظارے ابھی تک تو نہیں دیکھے یا دیکھے ہوں گے تو چند ایک دیکھے ہوں گے۔ وہ رواں اور فرواں مخلوق اور وہ مویشیوں کی رسیاں تھامے بچے اب گرانی کے ہاتھوں گھر میں چُپ چاپ بیٹھے ہیں۔ ہمسایے یا رشتہ داروں کے جانوروں کی قربانی میں حصہ ڈالنا ہوگا۔یوں ہی گذارا ہوگا وگرنہ بچوں کی خوشیا ں بھی اس مہنگائی نے چھین لی ہیں۔گائے بیل کا چلن اب تو شہر میں عام نہیں رہا۔ بلکہ مقفود و محدود و مرحوم ہوچکا ہے۔صاحب گرانی ہے گرانی اور اچھی خاصی گرانی ہے جانورکے انتخاب اور اس کی خرید یابی میں ہچکچاہٹ ہے۔بچھڑے کا پوچھو تو ڈیڑھ لاکھ۔اگر یہ حال ہے تو پورا بیل کتنے میں ہوگا۔ دنبہ بکرا تو پچاس ہزار سے کم کا نہیں ہے۔ایسے میں کوئی کیا کرے۔دگنی اور تگنی قیمت پر جانور خریدیں توکیسے خریدیں۔عیدِ قرباں کی قربانی کا تعلق خلوص کے ساتھ ہے۔
جو شخص قربانی کرنے کا پابند نہیں وہ بھی شوق کے تحت جانور لے کر اپنا جانور بروزِ عید ذبح کر دیتا تھا۔ مگر اب کے بھی تو خلوص کامظاہرہ کرنے والے ہیں۔وہ ضرور اپنے شوق کو بارگاہِ ایزدی میں بہ مقصد قبولیت بھیجیں گے۔مگر وہ دھوم دھڑکا تو اب نہیں۔شاید اگلے سال یہ نوچ لی جانے والی بہار دوبارہ سے فتح یاب ہو۔ ”خزاں رکھے گی درختوں کو بے ثمر کب تک۔ گذر ہی جائے گی یہ رُت بھی حوصلہ رکھنا“۔کہیں کہیں گائے بیل نظر آ جاتے ہیں۔ہفتہ بھر باقی ہے لوگ اپنے ذوق و شوق کی آبیاری کرنے کو آخر کار نکلیں گے۔ کیونکہ جانور کو لے کر گھر آجانا تو آسان ہے۔مگر شہر کے اکثر سیمنٹ او رمر مر والے گھروں میں اتنی کشادگی نہیں ہوتی کہ وہ جانور کو اپنی وسعت میں سمو لے۔سو بعض حضرات تو کہیں عید کے قریب ہی جاکر اپنے لئے مویشی لائیں گے۔ سو جو رونق اب نہیں وہ عید کے دو دن پہلے نکل آئے گی۔ مگر دوسری طرح جہاں شہریوں کے پاس رقم کی کمی ہے اور جیبیں خالی ہیں وہ قربانی کے سلسلے میں از حد پریشانی میں ہیں۔ روز جاتے ہیں او رمنڈیوں کی تلاش کرتے ہیں او رنرخ وغیرہ پوچھ کر گھر آتے ہیں تو خالی ہاتھ لوٹتے ہیں۔گھر والے سوال کریں تو گرمی کے مارے گریبان کھول کر آستینیں چڑھا کر گاؤ تکیے پر اپنے آپ کو گرا کر بس ایک جملہ بولتے ہیں مال مہنگاہے۔