پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے اپنے ایرانی ہم منصب ڈاکٹر عامر ابدولیان سے ملاقات میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کا جائزہ لیا ہے اور تجارتی تعلقات کو مزید فروغ دینے کے عزم کا اظہار کیا گیا۔ گزشتہ چند برس میں جمہوری اسلامی ایران کی جانب سے متعدد مواقعوں پر پاکستان کی مدد کی گئی ہے اور حال ہی میں بلوچستان میں آگ بجھانے کیلئے آلات و ہیلی کاپٹر بھی دیئے ہیں۔ پاک ایران وزرائے خارجہ کے درمیان بات چیت کا بنیادی نکتہ تجارتی اور اقتصادی تعلقات بہتر بنانا تھا بالخصوص دونوں ممالک کے درمیان سازوسامان کی نقل و حمل اور افرادی نقل و حرکت کو آسان بنانا ہے جبکہ ایران کے راستے عراق و سعودی عرب تک ریل گاڑی لنک کے ذریعے حج و عمر ہ اور زیارات کے سفر کو انتہائی کم قیمت بنایا جا سکتا ہے جس کیلئے بجلی و ڈیزل کی صورت ایران و عراق ایندھن فراہم کر سکتے ہیں اور اِس سے ہوائی جہاز کے ذریعے مہنگا سفر کرنے جیسی مجبوری بھی باقی نہیں رہے گی۔ ماضی میں پشاور سے افغانستان براستہ ہرات ایران اور وہاں سے عراق تا سعودی عرب سفر بسوں یا اپنی موٹرگاڑیوں میں کیا جاتا تھا۔
یہی راہداری ترکی کے راستے یورپ تک بھی چلی جاتی ہے اور اہم بات یہ ہے کہ پاکستان سے سعودی عرب اور ترکی تک سفر کے دوران کوئی بھی غیرمسلم ملک نہیں آتا کہ جس کی طرف سے عازمین حج و عمرہ یا زیارات جیسے مقدس سفر کی راہ میں رکاوٹ ڈالی جائے۔ایران اور پاکستان کی جیو سٹریٹجک قربت اور تجارت کے امکانات کے باوجود پاکستان کے قیام کے پہلے 75سالوں تک دونوں ممالک کے درمیان صرف ایک سرحدی گزرگاہ تھی۔ سال 2021ء کے بعد سے مزید دو سرحدی گزرگاہیں کام کر رہی ہیں لیکن یہ سارا سال اور چوبیس گھنٹے کھلی (فعال) نہیں رکھی جاتیں جبکہ اِن سرحدوں پر مسافروں کے قیام و طعام کیلئے سہولیات بھی مبینہ طور پر ناکافی ہیں۔ سفری تکالیف کے باوجود ایران و عراق کے مقدس مقامات کی زیارت اور تجارت کیلئے جانے والوں کی تعداد سالانہ لاکھوں زائرین پر مشتمل ہے اور اِس سفر کو زیادہ باسہولت بنانے کیلئے دونوں ممالک کے درمیان سرحدی انتظام کے معاہدوں پر دستخط بھی کئے گئے ہیں‘ جن سے سرحدی سلامتی و انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں اضافے جیسے ٹھوس فوائد بھی حاصل ہوئے ہیں۔
پاک ایران حالیہ بات چیت میں علاقائی توانائی تعاون کو مستحکم کرنے اور پاکستان کے موجودہ توانائی بحران کے حل و مغربی ملحقہ ریاستوں پر توانائی پر انحصار کیلئے ایران سے اضافی توانائی کی درآمد جیسے امور شامل تھے۔ بلاول نے سابق صدر آصف علی زرداری کی جانب سے شروع کئے گئے ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے کی بحالی کی تجویز پیش کی۔ 2775کلو میٹر طویل پائپ لائن کا معاہدہ 1995ء میں کیا گیا تھا۔امریکہ‘ یورپی یونین اور اقوام متحدہ کی جانب سے وقفے وقفے سے مسلط کی جانے والے ایران مخالف جبری اقدامات نے تہران کو سفارتی اور اقتصادی نقصانات پہنچائے ہیں۔ اقوام متحدہ کی متعدد قراردادوں (1696‘ 1737‘ 1747‘ 1803‘ 1835 اور 1929) کے ذریعے ایران پر اقتصادی پابندیاں عائد ہیں جن میں وقت کے ساتھ بتدریج اضافہ کیا جا رہا ہے۔ اِن بین الاقوامی پابندیوں کے بارے میں پاکستان کی جانب سے بھی تشویش کا اظہار کیا جاتا رہا ہے لیکن مذکورہ پابندیوں سے پاک ایران اقتصادی تعاون کی راہ میں کوئی روک نہیں ہے۔
اس پس منظر میں یو این ایس سی کی قرارداد 2231 جو 2015ء میں منظور کی گئی تھی‘ تہران کیلئے اہم پیش رفت کے طور پر دیکھی جاتی ہے جس میں اقوام متحدہ کی عائد پابندیوں کی معطلی اور خاتمے کا شیڈول دیا گیا ہے۔ یہ قرارداد سال دوہزارپندرہ میں مشترکہ جامع لائحہ عمل طے کرنے کے بعد منظور کی گئی جسے عرف عام میں ”ایران جوہری معاہدہ“ کہا جاتا ہے اور یوں اقوام متحدہ کی پابندیاں 18اکتوبر 2020ء کو ختم ہو گئیں تاہم 2020ء میں اقوام متحدہ کی پابندیوں کے متوازی امریکہ نے تہران پر ثانوی پابندیاں عائد کر دیں اور غیر ملکی اداروں کو ایران سے اپنی سرمایہ کاری واپس لینے پر مجبور کیا گیا۔ سال 2012ء میں امریکی ایران پابندیوں کے قانون نے ایرانی تیل کے خریداروں پر دباؤ ڈالا تھا کہ وہ اپنی خریداری میں بتدریج کمی کریں یا پھر عالمی تنہائی کا خطرہ مول لیں۔ اگرچہ 2015ء کے اقوام متحدہ اجلاس نے ایران کے خلاف بقیہ ثانوی پابندیاں معطل کر دیں لیکن بنیادی پابندیوں سے متعلق دفعات برقرار ہیں۔ اس کے علاوہ امریکہ اور ایران کے درمیان تعلقات کے پگھلنے کے باوجود امریکی ایرانی لین دین اور پابندیوں کے ضوابط کے تحت دونوں کے درمیان تجارتی سرگرمی پر پابندی عائد ہے۔
سال 2018ء میں امریکہ نے یک طرفہ طور پر ایران پر مزید پابندیاں عائد کیں اور ان پابندیوں میں میں اضافہ کیا۔اِن سبھی خطرات کے باوجود پاک ایران اقتصادی تعاون وقت کی ضرورت اور پاکستان میں پائے جانے والے بحرانوں کا حل ہے۔ بہر صورت پاکستان کوایران کے ساتھ بارٹر اصول پر تجارت کا آغاز کرنا چاہئے۔ چین بھی ایران سے اپنے تیل کی 25فیصد درآمدات کرتا ہے اور وہ ایرانی تیل کا پہلے نمبر پر درآمد کنندہ ہے۔ پاکستان کو دیکھنا چاہئے کہ اگر عالمی اقتصادی پابندیاں برقرار بھی رہیں تب بھی پاک ایران تجارت اور اقتصادی تعاون کے موجود اور نئے امکانات تلاش کئے جانے چاہئیں۔ پاکستان ایرانی تیل کے بدلے چاول اور گوشت فراہم کر سکتا ہے‘ جس پر امریکہ کو اعتراض نہیں ہو سکتا ایران کے علاوہ افغانستان کے ساتھ تجارت کرنے کے حوالے سے بھی اقتصادی پابندیاں موجود ہیں۔ افغانستان بدترین معاشی دور سے گزر رہا ہے جس کے ساتھ پاکستان کی تجارت اور اقتصادی تعاون انسانی ہمدردی کے ناطے بھی ضروری ہے۔ پاکستان اور ایران کے سماجی ثقافتی اور جغرافیائی مفادات مشترک ہیں اگرچہ پاکستان کو امریکہ یا یورپی یونین کے ساتھ بہتر تعلقات کو فروغ دینا چاہئے لیکن اس کے ساتھ ساتھ خطے کے دیگر دوست ممالک کے ساتھ پاک چین تعلقات کی طرح قابل اعتماد شراکت داری قائم کرنا بھی ضروری ہے اور ہمسایہ ممالک (ایران و افغانستان) سے تجارتی تعلقات بہتر بنا کر ہی پاکستان کے معاشی مستقبل کو محفوظ اور خوشحال و یقینی بنایا جا سکتا ہے۔