درپیش مسائل کا حل

کلائمیٹ چینج نے واقعی اس ملک کا مو سم تبدیل کر کے رکھ دیاہے، آ ج ہاڑ کی اکیس تاریخ ہے ابھی ساون کے آ نے میں 9دن پڑے ہیں اور بھادوں کے آ نے میں 39دن پر اب کی دفعہ ہاڑ کا مہینہ ایسا گزرا کہ جیسے ساون اور بھادوں،بے وقت کی بارشیں اور حبس اس ماہ کا امسال خاصہ تھیں اوپر سے بجلی کی لوڈ شیڈنگ حبس اتنی زیادہ تھی کہ بقول شاعروہ حبس ھے کہ لو کی دعا مانگتے ہیں، رہی سہی کسر کورونا کی تازہ ترین لہر نے نکال دی۔خدا اس ملک اور اس کے باسیوں کو ہر ناگہانی آ فت سے محفوظ رکھے‘ہمارے کئی مسائل گڈ گورننس کے فقدان اور بر وقت حفاظتی اقدامات نہ لینے کی وجہ سے پیدا ہو رہے ہیں‘ خدا لگتی یہ ہے کہ ہم نے تو آ ج تک بلیک اینڈ وائٹ میں کسی بھی سیاسی پارٹی کی طرف سے پیش کیا گیا ایسا پروگرام نہیں دیکھا کہ جس میں عوام کو بتلایا گیا ہو کہ ملک کو درپیش مسائل کو کیسے حل کیا جائے گا۔ سب لوگ جنرالائز generalizeقسم کی باتیں کرتے ہیں اور ملک کو درپیش مسائل کے حل کا فارمولا تحریر میں نہیں لاتے۔زبانی جمع خرچی سے تو ملک کو درپیش مسائل حل کبھی نہ ہوں گے۔
 قوم ان سے ٹھوس اقدامات کی تفصیلات چاہتے ہیں۔ پارلیمانی جمہوریت میں جو مروجہ طریقہ کار ہے وہ تو یہ ہے کہ ہر سیاسی پارٹی کے اندر ہر شعبہ زندگی کے بارے میں ماہرین کا ایک تھنک ٹینک ہوتا ہے جو ہمہ وقت ملک کو درپیش مسائل کا تجزیہ کرتا رہتا ہے اور ان کے حل کے واسطے مختلف تجاویز مرتب کر کے انہیں عوام کے ساتھ شیئر کرتا رہتا ہے۔ ان تجاویز پر پارلیمنٹ اور میڈیا میں بھی سیر حاصل بحث جاری رہتی ہے اور ملک کے عام آدمی کو علم ہوتا رہتا ہے کہ کونسی پارٹی کے پاس ان کے مسائل کا دوسری پارٹیوں سے بہتر حل موجودہے‘ الیکشن میں پھر وہ اس پارٹی کو بر سر اقتدار لاتے ہیں کہ جو ان کی دانست میں ملکی مسائل حل کرنے کی صلاحیت رکھے‘ افسوس کیساتھ لکھنا پڑتاہے کہ اس قسم کی سیاسی روایت اور رسم کو وطن عزیز میں فروغ نہیں دیا گیا‘اب تذکرہ ہوجائے کچھ عالمی معاملات کا جہاں روس کے قبضے میں آنے والے علاقے میں اضافہ ہورہا ہے اور یوکرین کو بھاری جانی اور مالی نقصان کا سامناہے۔ 
تازہ ترین خبروں کے مطابق روس نے چند دیگر اہم شہروں پر قبضہ کرلیا ہے جس کے بعد اسے معاملات پر پورا کنٹرول حاصل ہو گیا ہے اور اب اگر روس کے ساتھ جنگ بندی کی بات ہوتی ہے تو اس کی پوزیشن بہت مضبوط ہے وہ اگر یوکرین کیساتھ جنگ بندی کرتا بھی ہے تو ایسی شرائط پیش کرسکتا ہے جس کے ذریعے وہ یوکرین کو مستقل طور پر باندھ لے اور اسے امریکہ اور نیٹو کا اڈہ بننے نہیں دیگا‘اس کیساتھ ساتھ روس پر امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کی طرف سے عائدہ کردہ پابندیاں بھی بے اثر ثابت ہورہی ہیں اور روس کی درآمدات میں ریکارڈ اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے‘ روس سے تیل اور گیس کی ترسیل اسی طرح جاری ہے اور اسکے بدلے میں اسے جو زر مبادلہ مل رہا ہے اس سے روس کی معیشت مستحکم ہورہی ہے باجود اس کے کہ جنگ کے زمانے میں ممالک کی معیشت کمزور ہوجاتی ہے‘ روس کی کرنسی روبل کی قدر میں اضافہ اس امر کی نشانی ہے کہ روس پر عائدہ کردہ مغربی ممالک اور امریکہ کی پابندیاں بے اثر ہیں‘ سچ تو یہ ہے کہ عراق اور افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجانے والے امریکہ کی صحیح معنوں میں طاقتور ملک سے اب پالا پڑا ہے‘اس طرح جہاں افغانستان میں امریکہ کو عبرت ناک شکست ہوئی ہے یہاں بھی امریکہ کو ناکامی کا سامنا ہے۔